Type Here to Get Search Results !

کیا انبیائے کرم اولیاء عظام کو علم غیب ہے ؟

کیا انبیائے کرم اولیاء عظام کو علم غیب ہے ؟
________(❤️)_________
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
 کیا فرماتے ہیں علما کرام و مفتیان شرع اس مسلہ کے بارے میں کہ کیا انبیا ۓ کرام اور اولیاءاللہ کو علم غیب ہے ؟ کیوں کہ کچھ لوگوں کا اعتراض ہے کہ نبی اور ولی کو علم غیب نہیں ہوتا۔ لہذا قرآن و حدیث کی روشنی مکمل و ضاحت فرما کر شکریہ کا موقع دیں۔
سائل : نامعلوم 
_____🔹🔶🔹______
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ 
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب بعون الملک الوھاب:-
بلا شک و شبہ حضرات انبیاء علیہم السلام و اولیاء علیہم الرّحمہ بعطائے خداوندی غیب جانتے ہیں اور اللہ کی عطا سے کثیر غیوب پر مطلع ہیں ۔اس پر کثیر دلائل شاہد ہیں۔
  پہلے غیب کی تعریف جان لیں بعدہ دلائل ملاحظہ کریں۔
  علم غیب ان باتوں کے جاننے کو کہتے ہیں جن کو بندے عادی طور پر اپنی عقل اور اپنے حواس سے معلوم نہ کر سکیں۔
  تفسیر کبیر جلد اول صفحہ 174 میں ہے "الغيب هو الذي يكون غائبا عن الحاسة"
    دلائل از آیات قرآنی
قرآن مجید ، آل عمران پارہ 4 رکوع 9 آیت179 میں ہے 
"ما كان الله ليطلعكم على الغيب ولكن الله يجتبي من رسله من يشاء"
ترجمہ۔۔۔اللہ کی شان یہ نہیں کہ اے عام لوگو تمہیں غیب کا علم دے دے ہاں اللہ چن لیتا ہے اپنے رسولوں سے جسے چاہے۔(کنزالایمان)
  سورہ ہود پارہ 12رکوع 4آیت 49 میں ہے 
"تلك من انباء الغيب نوحيها اليك"
ترجمہ:- یہ غیب کی خبریں ہیں کہ ہم تمہاری طرف وحی کرتے ہیں۔(کنزالایمان)
سورہ تکویر پارہ 30رکوع 1آیت 24 میں ہے 
"وماهو على الغيب بضنين " 
ترجمہ:- اور یہ نبی غیب بتانے میں بخیل نہیں۔(کنزالایمان)
سورہ آل عمران پارہ 3رکوع 5 آیت 44 میں ہے 
"ذلك من انباء الغيب نوحيه اليك" 
ترجمہ:- یہ غیب کی خبریں ہیں کہ ہم خفیہ طور پر تمہیں بتاتے ہیں۔(کنزالایمان)
سورہ نساء پارہ 5رکوع 17آیت 113میں ہے 
"وعلمك مالم تكن تعلم وكان فضل الله عليك عظيما" 
ترجمہ:- اور تمہیں سکھا دیا جو کچھ تم نہ جانتے تھے اور اللہ کا تم پر بڑا فضل ہے ۔(کنزالایمان)
سورہ انعام پارہ 7رکوع 13آیت 59میں ہے 
"ولا حبّة في ظلمٰت الارض ولا رطب ولا يابس الا في كتٰب مبين"
ترجمہ:- اور کوئی دانہ نہیں زمین کی اندھیریوں میں اور نہ کوئی تر اور نہ خشک جو ایک روشن کتاب میں لکھا نہ ہو۔(کنزالایمان)
سورہ نمل پارہ 20رکوع 2آیت 75میں ہے 
"وما من غائبة في السماء والارض الا في كتاب مبين" 
ترجمہ:- اور جتنے غیب ہیں آسمان اور زمین کے سب ایک بتانے والی کتاب میں ہیں۔(کنزالایمان)
سورہ انعام پارہ 7رکوع 15آیت 76 میں ہے 
"وكذلك نري ابراهيم ملكوت السمٰوٰت والارض"
ترجمہ:- اور اسی طرح ہم ابراہیم کو دکھاتے ہیں ساری بادشاہی آسمانوں اور زمین کی۔(کنزالایمان)
سورہ جن پارہ 29رکوع 12آیت 26,27میں ہے 
"عٰلم الغيب فلا يظهر على غيبه احدا. الا من ارتضى من رسول" 
ترجمہ:- غیب کا جاننے والا تو اپنے غیب پر کسی کو مسلط نہیں کرتا سوائے اپنے پسندیدہ رسولوں کے۔(کنز الایمان) معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ اپنے رسولوں کو غیب پر قابو دیتا ہے اور جسے غیب پر قابو ہوتا ہے وہ غیب ضرور جانتا ہے تو ثابت ہوا کہ رسول غیب ضرور جانتے ہیں اس لئے کہ آیت کریمہ کا خلاصہ الرسول مظهَر على الغيب ہے اور اس سے بھی کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ كُلُّ مظهَر على الغيب يعلم الغيبَ تو ثابت ہوا کہ الرسول يعلم الغيبَ
   اور بھی بہت سی آیتیں ہیں جو علم غیب انبیاء پر دال ہیں۔
   دلائل از کتب تفسیر
  تفسیر روح البیان جلد اول صفحہ 100میں آیت کریمہ
 " وعلم آدم الاسماء كلها" کے تحت مرقوم ہے۔
 "علّمه اسماء الاشياء كلها أي الهمه فوقع في قلبه فجري على لسانه بما في قلبه بتسمية الاشياء من عنده فعلّمه جميع اسماء المسميات بكل اللغات بأن أراه الاجناس التي خلقها وعلّمه ان هذه اسمه فرس وهذا اسمه بعير و هذا اسمه كذاو علمه أحوالها وما يتعلق بها من المنافع الدينية والدنيوية و علمه أسماء الملائكة وأسماء ذريته كلهم وأسماء الحيوانات والجمادات وصنعة كل شيء وأسماء المدن والقرى وأسماء الطير والشجر وما يكون وكل نسمة يخلقها الي يوم القيامةو أسماء المطعومات والمشروبات وكل نعيم في الجنة وأسماء كل شيء حتى القصعة والقصيعة و حتى الجنة والمحلب . وفي الخبر علمه سبعمائة ألف لغة"
ترجمہ:- اللہ تبارک و تعالی نے حضرت آدم کو تمام اشیاء کے نام سکھائے یعنی اللہ کی طرف سے حضرت آدم کے قلب پر الہام ہوا تو تمام چیزوں کے نام حضرت آدم کی زبان پر جاری ہو گئے جو ان کے دل میں تھے تو ان کو تمام چیزوں کے نام ہرایک زبان میں بتا دیا بایں طور کہ رب تعالیٰ نے ان کو وہ تمام جنسیں دکھا دیں جس کو پیدا کیا ہے۔ اور ان کو بتا دیا کہ اس کا نام گھوڑا اور اس کا نام اونٹ اور اس کا نام فلاں ۔
اور چیزوں کے حالات سکھائے اور جو کچھ ان میں دینی و دنیاوی نفع ہیں وہ بتائے ۔اور ان کو فرشتوں کے نام ان کی اولاد اور حیوانات اور جمادات کے نام بتائے ۔اور ہر چیز کا بنانا بتایا۔تمام شہروں اور گاؤں کے نام پرندوں اور درختوں کے نام جو ہو چکا یا جو کچھ بھی ہو گا ان کے نام اور جو قیامت تک پیدا فرمائے گا ان کے نام اور کھانے پینے کی چیزوں کے نام جنت کی ہر نعمت غرضکہ ہر چیز کے نام بتا دئے۔یہاں تک کہ پیالہ، پیالی ، پردہ اور دودھ دوہنےکےبرتن کانام۔
   اور حدیث میں ہے کہ حضرت آدم کو سات لاکھ زبانیں سکھائی گئیں۔
  تفسیر خازن جلد اول صفحہ 196 میں آیت کریمہ 
"ولا يحيطون بشيء من علمه الا بما شاء" کے تحت مذکور ہے "(الا بما شاء) يعني اي يطلعهم عليه وهم الانبياء والرسل ليكون ما يطلعهم عليه من علم غيبه دليلا على نبوتهم كما قال الله تعالى فلا يظهر على غيبه احدا الا من ارتضى من رسول"
ترجمہ:- یعنی اللہ تعالی ان کو اپنے علم پر اطلاع دیتا ہےاور وہ انبیاء و رسول ہیں تاکہ ان کا علم غیب پر مطلع ہونا ان کی نبوت کی دلیل ہو جیسے رب نے فرمایا ہے کہ پس نہیں ظاہر فرماتا اپنے غیب خاص پر کسی کو سوائے اس رسول کے جس سے رب راضی ہے۔
 تفسیر خازن جلد اول صفحہ 329 میں آیت کریمہ 
"ما كان الله ليطلعكم على الغيب ولكن الله يجتبي من رسله من يشاء"
 کے تحت ارقام فرماتے ہیں: 
"لكن الله يصطفي ويختار من رسله من يشاء فيطلعه على ما يشاء من غيبه" 
ترجمہ:- لیکن اللہ رب العزت چن لیتا ہے اپنے رسولوں میں سے جس کو چاہتا ہے ان کو خبردار کرتا ہے اپنے غیب پر۔
  تفسیر خازن جلد اول صفحہ 429میں آیت کریمہ 
"وعلمك مالم تكن تعلم وكان فضل الله عليك عظيما"
 کے تحت مرقوم ہے 
"يعني من احكام الشرع وامور الدين وقيل علمك من علم الغيب مالم تكن تعلم وقيل معناه علمك من خفيات الامور واطلعك على ضمائر القلوب وعلمك من احوال المنافقين وكيدهم ما لم تكن تعلم"
ترجمہ۔۔۔ یعنی شریعت کے احکام اور دین کی باتیں سکھائیں اور کہا گیا ہے کہ آپ کو علم غیب میں سے وہ باتیں سکھائیں جو آپ نہ جانتے تھے اور کہا گیا ہے کہ اس کے معنی یہ ہیں کہ آپ کو چھپی چیزیں سکھائیں اور دلوں کے راز پر مطلع فرمایا اور منافقین کے مکروفریب آپ کو بتا دیے جو آپ نہ جانتے تھے۔
   دلائل از احادیث کریمہ:-
"عن عمر قال قام فينا رسول الله صلى الله تعالى عليه وسلم مقاما فاخبرنا عن بدء الخلق حتى دخل اهل الجنه منازلهم واهل النار منازلهم حفظ ذلك من حفظه ونسيه من نسيه"
  (بخاری جلد اول صفحہ 453کتاب بدء الخلق،مشکوۃ صفحہ 516باب فضائل سید المرسلین)
ترجمہ۔۔۔حضرت فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ ایک بار حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہم لوگوں کے مجمع میں کھڑے ہوئے تو حضور نے ابتدائے آفرینش سے جنتیوں کے جنت میں اور دوزخیوں کے دوزخ میں داخل ہونے تک کے سارے حالات کی ہمیں خبر دے دی ۔(حضور سے سننے والوں میں )جس نے اس بیان کو یاد رکھا اس نے یاد رکھا اور جو بھول گیا وہ بھول گیا۔
 عن ابي زيد يعني عمروابن اخطب الانصار ي قال صلى بنا رسول الله صلى الله تعالى عليه وسلم الفجر وصعد المنبر فخطبنا حتى حضرت الظهر فنزل فصلى ثم صعد المنبر فخطبنا حتى حضرت العصر ثم نزل فصلى ثم صعد المنبرفخطبنا حتى غربت الشمس فاخبرنا بما كان وبما هو كائن فاعلمنا احفظنا
 (مسلم شریف جلد دوم 390کتاب صفۃ المنافقین،مشکوۃ صفحہ 543باب فضائل سید المرسلین)
ترجمہ:- حضرت ابو زید یعنی عمروبن اخطب انصاری رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں فجر کی نماز پڑھائی اور منبر پر رونق افروز ہو کر ہمارے سامنے تقریر فرمائی یہاں تک کہ ظہر کی نماز کا وقت آگیا پھر منبر سے تشریف لا کر نماز پڑھائی اس کے بعد منبر پر تشریف لے گئے اور ہمارے سامنے تقریر فرمائی یہاں تک کہ عصر کی نماز کا وقت آ گیا پھر منبر سے اتر کر نماز پڑھائی اس کے بعد منبر پر تشریف لے گئے یہاں تک کہ سورج ڈوب گیا اس تقریر میں جو کچھ ہوا اور جو کچھ ہونے والا ہے تمام واقعات کی حضور نے ہمیں خبر دے دی توہم لوگوں میں سب سے بڑا عالم وہ شخص ہے جسے حضور کی بتائ ہوئی خبریں زیادہ یاد ہیں۔
   عن انس ان النبي صلى الله تعالى عليه وسلم خرج حين زاغت الشمس فصلى الظهر فلما سلم قام على المنبر فذكر الساعة وذكر أن بين يديها امورا عظاما ثم قال من احب ان يسأل عن شيء فليسئل عنه فو الله لا تسالوني عن شيء فليسئل عنه فو الله لا تسالوني عن شيء الا اخبرتكم به مادمت في مقامي هذا قال انس فاكثر الناس البكاء واكثر رسول الله صلى الله عليه و سلم ان يقول سلوني فقال انس فقام اليه رجل فقال اين مدخلي يا رسول الله فقال النار فقام عبد الله بن حذيفة فقال من ابي يا رسول الله قال ابوك حذافة ثم اكثر ان يقول سلوني سلوني فبرك عمر على ركبتيه فقال رضينا بالله ربا وبالاسلام دينا وبمحمد رسولا قال فسكت رسول الله صلى الله عليه وسلم"
 (بخاري شریف باب ما یکرہ من
کثرۃ الصلاۃ جلد دوم صفحہ 159)
ترجمہ:- حضرت انس سے مروی ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سورج کے زوال کے بعد تشریف لائے اور نماز ظہر پڑھائی جب سلام پھیرا تو منبر پر قیام فرمایا پھر قیامت کا ذکر کیا اور آنے والے بڑے بڑے امور کا تذکرہ کیا پھر فرمایا جو کسی چیز کے بارے میں سوال کرنا پسند کرے تو سوال کرے کہ خدا کی قسم تم مجھ سے جس چیز کا سوال کروگے میں جب تک اس مقام میں رہوں گا تمہیں اس کی خبر دوں گا۔حضرت انس نے فرمایا لوگوں نے زیادہ رونا شروع کیا اور نبی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم یہ بات بار بار فرماتے رہے کہ تم مجھ سے سوال کرو پھر حضرت انس نے فرمایا کہ ایک شخص کھڑا ہو کر عرض کرنے لگا یا رسول اللہ میرے داخل ہونے کی جگہ کہاں ہے فرمایا دوزخ۔پھر حضرت عبداللہ بن حذافہ نے کھڑے ہو کر دریافت کیا یارسول اللہ میرا باپ کون ہے فرمایا تیرا باپ حذافہ ہے پھر حضور نے بکثرت فرمایا کہ مجھ سے سوال کرو ۔۔۔ مجھ سے سوال کرو تو حضرت عمر فاروق گھٹنوں کے بل بیٹھ کر عرض کرنے لگے کہ ہم اللہ کے رب ہونے اور اسلام کے دین ہونے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے رسول ہونے پر راضی ہوگئے تو حضور نے سکوت فرمایا۔
  عن حذيفة قال قام فينا رسول الله صلى الله تعالى عليه واله وسلم ما ترك شيئا يكون في مقامه ذلك الى قيام الساعة الا حدث به حفظه من حفظه ونسيه من نسيه
(مسلم شریف،کتاب الفتن جلد دوم صفحہ390مشکوۃ شریف صفحہ 461)
ترجمہ:- حضرت حذیفہ سے روایت ہے کہا کہ ہم میں رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کھڑے ہوئے یعنی وعظ فرمایا تواس مقام میں قیامت تک ہونے والی کسی چیز کو نہیں چھوڑا مگر اسے بیان فرمایا تو اس کو جس شخص نے یاد رکھا یاد رکھا اور جس نے بھلا دیا بھلا دیا۔
   احادیث مذکورہ سے معلوم ہوا کہ انبیاء علیہم السلام کو علم غیب ہے۔
   اب مخالفین و معترضین کے اکابر کی کچھ عبارتیں ملاحظہ کر لیں جن سے مسئلہ علم غیب بخوبی حل ہو جاتاہے:
   حاجی امداد اللہ صاحب شمائم امدادیہ صفحہ 110 میں فرماتے ہیں کہ
 لوگ کہتے ہیں کہ علم غیب انبیاء و اولیاء کو نہیں ہوتا۔
  میں کہتا ہوں کہ اہل حق جس طرف نظر کرتے ہیں دریافت و ادراک مغیبات ان کو ہوتا ہے اصل میں یہ علم حق ہے۔آنحضرت علیہ السلام کو حدیبیہ اور حضرت عائشہ کے معاملے کی خبر نہ تھی اس کو دلیل اپنے دعوے کی سمجھتے ہیں یہ غلط ہے کیونکہ علم کے واسطے توجہ ضروری ہے(ماخوذ از انوار غیبیہ صفحہ25)
   مولوی رشید احمد صاحب گنگوہی لطائف رشیدیہ صفحہ 27 میں فرماتے ہیں ۔ 
انبیاء علیہم السلام کو ہر دم مشاہدہ امور غیبیہ اور تیقظ و حضور حق تعالیٰ کا رہتا ہے كما قال النبي عليه السلام" لو تعلمون ما اعلم لضحكتم قليلا ولبكيتم كثيرا" اور فرمایا"اني ارىٰ مالا ترون"(انوار غیبیہ صفحہ32)
مولوی اشرف علی صاحب تھانوی تکمیل الیقین مطبوعہ ہندوستان پرنٹنگ پریس صفحہ 135 میں فرماتے ہیں"کہ شریعت میں وارد ہوا ہے کہ رسل و اولیاء غیب اور آئندہ کی خبر دیا کرتے ہیں کیونکہ جب خدا غیب اور آئندہ کے حوادثات کو جانتا ہے اس لیے کہ ہر حادث اس کے علم سے اسی کے ارادے کے متعلق ہونے سے اسی کے فعل سے پیدا ہوتا ہے تو پھر اس سے کون امر مانع ہوسکتا ہے کہ یہ ہی خدا ان رسل و اولیاء میں سے جسے چاہے اسے غیب یا آئندہ کی خبر دے دے ۔اگرچہ ہم اس کے قائل ہیں کہ فطرت انسانی کا یہ مقتضی نہیں کہ وہ بذاتہ اور خود مغیبات میں سے کسی شے کو جان سکے لیکن اگر خدا کسی کو بتا دے تو اس کو کون روک سکتا ہے پس ان لوگوں کو جو کچھ معلوم ہوتا ہے وہ خدا کے بتانے سے ہی معلوم ہوتا ہے اور پھر وہ لوگ اوروں کو خبر دے دیتے ہیں ان میں سے ایسا کوئی نہیں جو بذاتہ علم غیب کا دعویٰ کرتا ہے چنانچہ شریعت محمدیہ بالذات علم غیب کے دعویٰ کرنے کو اعلی درجے کے ممنوعات میں شمار کرتی ہے اور جو اس کا دعویٰ کرے اس کو کافر بتاتی ہے۔
   مولوی محمد قاسم صاحب نانوتوی تحذیر الناس کے صفحہ 4 پر لکھتے ہیں"علوم اولین مثلاً اور ہیں اور علوم آخرین اور۔ لیکن وہ سب علم رسول اللہ میں مجتمع ہیں اسی طرح سے عالم حقیقی رسول ہیں اور انبیاء باقی اور اولیاء بالعرض ہیں "۔
(اني نقلتُهااعنی عبارات المخالفین من "جاء الحق "صفحہ76,77)
   فقہ حنفی کی معتبر و مستند کتاب, بہار شریعت, میں ہے"اللہ عزوجل نے انبیاء علیہم السلام کو اپنے غیوب پر اطلاع دی"
(جلد اول حصہ اول صفحہ 41 عقائد متعلقہ نبوت ،ایڈیشن دعوت اسلامی)
    اسی میں صفحہ 268پر ہے"علوم غیبیہ ان پر (اولیاء اللہ)منکشف ہوتے ہیں۔ان میں بہت کو ماکان وما یکون. اور تمام لوح محفوظ پر اطلاع دیتے ہیں مگر یہ سب حضور صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے واسطہ و عطا سے۔ بےوساطت رسول کوئ غیر نبی کسی غیب پر مطلع نہیں ہو سکتا۔(ولایت کا بیان)
تفسیرات احمدیہ صفحہ608,609 میں ہے 
"ولك ان تقول ان علم هذه الخمسة وان كان لايعلمه إلا الله لكن يجوز ان يعلمها من يشاء من محبه و اولياءه بقرينة قوله تعالى"ان الله عليم خبير"علي ان يكون الخبير بمعنى المخبر"
  ترجمہ۔۔۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ ان پانچوں کا علم سوائے اللہ کے کوئی نہیں جانتا۔لیکن یہ ہو سکتا ہے کہ اللہ تبارک و تعالی اپنے اولیاء اور پیاروں میں سےجسے چاہے بتا دے ۔اس لیے کہ اس پر اللہ تبارک وتعالی کا فرمان "ان الله عليم خبير"دلالت کررہاہے کیونکہ آیت مذکورہ میں"خبیر "بمعنی "مخبر" کے ہے ۔
   تفسیر صاوی جلد پنجم صفحہ 1607میں ہے "(وما تدري نفس ماذا تكسب غدا)اي :من حيث ذاتها ،واما بإعلام الله للعبدفلا مانع منه كالانبياء و بعض الاولياء ،قال تعالى: (ولا يحيطون بشيء من علمه الا بما شاء). وقال تعالى:(عٰلم الغيب فلا يظهر على غيبه احدا الا من ارتضى من رسول). قال العلماء:وكذا ولي ،فلا مانع من كون الله يطلع بعض عباده الصالحين علي بعض هذه المغيبات فتكون معجزة للنبي وكرامة للولي۔  
 ترجمہ:- اور کوئی جان نہیں جانتی کہ کل وہ کیا کرے گی،یہ من حیث الذات ہے۔
رہا اللہ تعالی کا بندے کو بتانے سے تو اس سے کوئ چیز مانع نہیں کیونکہ اللہ نے انبیاء اور بعض اولیاء کو بتایا ہے جیسا کہ اس پر قرآن مجید کی دونوں آیتیں۔"ولا يحيطون بشيء من علمه الا بما شاء" ، "عالم الغيب فلا يظهر على غيبه احدا الا من ارتضى من رسول "ناطق ہیں۔
  علماء نے فرمایا : اللہ تبارک و تعالی کو اس سےکوئی روک نہیں سکتا کہ وہ ان مغیبات میں سے بعض پر اپنے نیک بندوں کو مطلع کرے ۔
  لہذا علم مغیبات نبی کے لیے معجزہ ہوگا اور ولی کے لئے کرامت۔
   تو مسئلہ علم غیبِ انبیاء و اولیاء روز روشن کی طرح عیاں ہو گیا کہ یقیناً انبیاء و اولیاء غیب جانتے ہیں 
ع اور کوئی غیب کیاتم سے نہاں ہو بھلا
جب نہ خدا ہی چھپا تم پہ کروڑوں درود
   اگر مزید دلائل درکار ہوں تو محافظ عقائد اہل سنت فاضل بریلوی قدس سرہ العزیز کی کتب مثلاً"الدولة المكية بالمادة الغيبية " "خالص الاعتقاد"،"انباء الحي " "ازاحة العيب بسيف الغيب"،"انباء المصطفي بحال سر و اخفي"، "مالئ الجيب بعلوم الغيب"،اور جاء الحق وغیرہا کا مطالعہ کریں۔
والله اعلم بالصواب وعنده تعالى ام الكتاب.
________(❤️)_________
 ✒️كتبه :- محمد رضوان عالم مرکزی غفر لہ القوی
6ذیقعدہ 1442ھ
مطابق17جون 2021ء

__🔹🔶🔹______

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area