(سوال نمبر 7079)
حضرت بلال نے فجر کی اذان نہیں دئے تو صبح نہیں ہوئی کیا یہ واقعہ درست ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلامُ علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ
عرضِ خدمت یہ ہے کہ یہ حدیث کس کتاب میں اور کس سے روایت ہے کہ جب حضرت بلال رضی اللہ عنہٗ نے فجر کی اذان نہیں دی تھی تو صبح نہیں ہوئی تھی ؟ اور یہ بھی کہ حضرت علی رضی اللہ عنہٗ کی جب عصر کی نماز قضا ہو گئی تھی تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلّم نے سورج کو پھرایا تھا یہ کس کتاب میں ہے اور کس سے روایت ہے؟ برائے مہربانی اسکا جواب از جلد ارسال فرمائیں
سائل:- محمد سلیم رضا ضلع مہراجگنج
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده و نصلي على رسوله الكريم
وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالى عزوجل
١/ حضرت بلال رضی اللہ عنہ کا واقعہ سورج نہ نکلنے کے تعلق سے درست نہیں ہے من گھڑت ہے
حضرت بلال رضی اللہ عنہ کے حوالے سے جو واقعہ آپ نے ذکر کیا ہے بسیار تلاش کے باوجود کتب حدیث و سیر میں ہمیں نہیں ملا، علماء نے لکھا ہیں کہ یہ واقعہ موضوع اور من گھڑت ہے،اس کی کوئی اصل نہیں ہے، باطل ہے ۔
اخیر میں ہمیں یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ سورج کا رکنا یہ صرف حضرت یوشع بن نون علیہ السلام کے لئے ہوا تھا،ان کے علاوہ سورج کا رکنا کسی اور کے لئے نہیں ہوا، اور یوشع بن نون علیہ السلام کے متعلق سورج کا رکنا صحیح روایات سے ثابت ہیں جو درج ذیل ہیں،
عن ابي هريرة رضي الله تعالى عنه ان النبي صلى الله عليه وسلم قال: (غزا نبي من الأنبياء………..فَغَزا فأدْنى لِلْقَرْيَةِ حِينَ صَلاةِ العَصْرِ، أوْ قَرِيبًا مِن ذلكَ، فقالَ لِلشَّمْسِ: أنْتِ مَأْمُورَةٌ، وأنا مَأْمُورٌ، اللَّهُمَّ، احْبِسْها عَلَيَّ شيئًا، فَحُبِسَتْ عليه حتّى فَتَحَ اللَّهُ عليه)
(صحيح مسلم رقم الحديث: ١٧٤٧، صحيح البخاري رقم الحديث:٣١٢٤،صحيح ابن حبان رقم الحديث:٤٨٠٨)
انبیاء میں سے کسی نبی نے عصر کے وقت یا اس سے قریب قریب کسی شہر میں غزوہ کیا،تو انہوں نے سورج سے کہا کہ تو اللہ کے حکم کا مامور ہے،اور میں بھی اللہ کے حکم کا مامور ہو،پھر انہوں نے اللہ سے دعا کی اے اللہ تو اس کو ہمارے لئے تھوڑا روک دے چنانچہ اللہ سبحانہ وتعالی نے اس کو روک دیا،اور اللہ نے ان کو فتح میں کامیابی نصیب فرمائی۔
اس صحیح روایت سے معلوم ہو گیا کہ حضرت یوشع بن نون علیہ السلام کے لئے سورج کو روکا گیا تھا۔
اسی طرح ایک روایت میں ہے کہ سورج صرف اور صرف یوشع بن نون علیہ السلام کے لئے روکا گیا،اور ان کے علاوہ کسی اور کے لئے نہیں روکا گیا،
چنانچہ مستند احمد میں ہے،
عن أبي هريرة قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم إنَّ الشَّمسَ لم تُحبَسْ على بشرٍ إلّا ليُوشَعَ لياليَ سار إلى بيتِ المقدسِ۔ (المسند لاحمد بن حنبل رحمه الله (١٤/٦٥)
اس سے معلوم ہو گیا کہ سوال مذکور میں جو واقعہ ذکر کیا گیا ہے اس کی کوئی اصل نہیں ہے، کیونکہ ان احادیث میں بتایا گیا کہ سورج کا روکنا صرف اور صرف یوشع بن نون علیہ السلام کے لیے ہوا ہے،
٢/ حضرت علی کی نماز قضا ہوئی حضرت محمّد صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی تو سورج واپس آ گیا یہ معجزہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے جس روایت میں اس کا تذکرہ آیا ہے اس کی امام طحاوی رحمہ اللہ نے تصحیح کی ہے اور محدثین کی ایک جماعت نے جس میں محدث طبرانی بھی ہیں حسن سند کے ساتھ اس کی تخریج کی ہے، اور یہی نہیں بلکہ صاحب النہر الفائق نے ان لوگوں کی تغلیط بھی کی ہے جنھوں نے اس حدیث کو موضوع کہا ہے
ذکر الشافعیة أن الوقت یعود لأنہ علیہ الصلاة والسلام نام في حجر علي حتی غربت الشمس، فلما استیقظ ذکر لہ أنہ فاتتہ العصر فقال: اللہم إنہ کان في طاعتک وطاعة رسولک فارددہا علیہ، فردت حتی صلی العصر وکان ذلک بخیبر، والحدیث صححہ الطحاوی وعیاض،وأخرجہ جماعة منہم الطبراني بسند حسن، وأخطأ من جعلہ موضوعا کابن الجوزي وقواعدنا لا تأباہ․ اھ (شامي: ۲/۱۶-۱۷، کتاب الصلاة، مطلب: لو ردت الشمس بعد غروبہا)
حاصل کلام یہ ہے کہ مذکورہ سوال میں حضرت بلال رضی اللہ تعالی عنہ کا واقعہ غلط ہے اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کا واقعہ صحیح ہے
والله ورسوله اعلم بالصواب
حضرت بلال نے فجر کی اذان نہیں دئے تو صبح نہیں ہوئی کیا یہ واقعہ درست ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلامُ علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ
عرضِ خدمت یہ ہے کہ یہ حدیث کس کتاب میں اور کس سے روایت ہے کہ جب حضرت بلال رضی اللہ عنہٗ نے فجر کی اذان نہیں دی تھی تو صبح نہیں ہوئی تھی ؟ اور یہ بھی کہ حضرت علی رضی اللہ عنہٗ کی جب عصر کی نماز قضا ہو گئی تھی تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلّم نے سورج کو پھرایا تھا یہ کس کتاب میں ہے اور کس سے روایت ہے؟ برائے مہربانی اسکا جواب از جلد ارسال فرمائیں
سائل:- محمد سلیم رضا ضلع مہراجگنج
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده و نصلي على رسوله الكريم
وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالى عزوجل
١/ حضرت بلال رضی اللہ عنہ کا واقعہ سورج نہ نکلنے کے تعلق سے درست نہیں ہے من گھڑت ہے
حضرت بلال رضی اللہ عنہ کے حوالے سے جو واقعہ آپ نے ذکر کیا ہے بسیار تلاش کے باوجود کتب حدیث و سیر میں ہمیں نہیں ملا، علماء نے لکھا ہیں کہ یہ واقعہ موضوع اور من گھڑت ہے،اس کی کوئی اصل نہیں ہے، باطل ہے ۔
اخیر میں ہمیں یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ سورج کا رکنا یہ صرف حضرت یوشع بن نون علیہ السلام کے لئے ہوا تھا،ان کے علاوہ سورج کا رکنا کسی اور کے لئے نہیں ہوا، اور یوشع بن نون علیہ السلام کے متعلق سورج کا رکنا صحیح روایات سے ثابت ہیں جو درج ذیل ہیں،
عن ابي هريرة رضي الله تعالى عنه ان النبي صلى الله عليه وسلم قال: (غزا نبي من الأنبياء………..فَغَزا فأدْنى لِلْقَرْيَةِ حِينَ صَلاةِ العَصْرِ، أوْ قَرِيبًا مِن ذلكَ، فقالَ لِلشَّمْسِ: أنْتِ مَأْمُورَةٌ، وأنا مَأْمُورٌ، اللَّهُمَّ، احْبِسْها عَلَيَّ شيئًا، فَحُبِسَتْ عليه حتّى فَتَحَ اللَّهُ عليه)
(صحيح مسلم رقم الحديث: ١٧٤٧، صحيح البخاري رقم الحديث:٣١٢٤،صحيح ابن حبان رقم الحديث:٤٨٠٨)
انبیاء میں سے کسی نبی نے عصر کے وقت یا اس سے قریب قریب کسی شہر میں غزوہ کیا،تو انہوں نے سورج سے کہا کہ تو اللہ کے حکم کا مامور ہے،اور میں بھی اللہ کے حکم کا مامور ہو،پھر انہوں نے اللہ سے دعا کی اے اللہ تو اس کو ہمارے لئے تھوڑا روک دے چنانچہ اللہ سبحانہ وتعالی نے اس کو روک دیا،اور اللہ نے ان کو فتح میں کامیابی نصیب فرمائی۔
اس صحیح روایت سے معلوم ہو گیا کہ حضرت یوشع بن نون علیہ السلام کے لئے سورج کو روکا گیا تھا۔
اسی طرح ایک روایت میں ہے کہ سورج صرف اور صرف یوشع بن نون علیہ السلام کے لئے روکا گیا،اور ان کے علاوہ کسی اور کے لئے نہیں روکا گیا،
چنانچہ مستند احمد میں ہے،
عن أبي هريرة قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم إنَّ الشَّمسَ لم تُحبَسْ على بشرٍ إلّا ليُوشَعَ لياليَ سار إلى بيتِ المقدسِ۔ (المسند لاحمد بن حنبل رحمه الله (١٤/٦٥)
اس سے معلوم ہو گیا کہ سوال مذکور میں جو واقعہ ذکر کیا گیا ہے اس کی کوئی اصل نہیں ہے، کیونکہ ان احادیث میں بتایا گیا کہ سورج کا روکنا صرف اور صرف یوشع بن نون علیہ السلام کے لیے ہوا ہے،
٢/ حضرت علی کی نماز قضا ہوئی حضرت محمّد صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی تو سورج واپس آ گیا یہ معجزہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے جس روایت میں اس کا تذکرہ آیا ہے اس کی امام طحاوی رحمہ اللہ نے تصحیح کی ہے اور محدثین کی ایک جماعت نے جس میں محدث طبرانی بھی ہیں حسن سند کے ساتھ اس کی تخریج کی ہے، اور یہی نہیں بلکہ صاحب النہر الفائق نے ان لوگوں کی تغلیط بھی کی ہے جنھوں نے اس حدیث کو موضوع کہا ہے
ذکر الشافعیة أن الوقت یعود لأنہ علیہ الصلاة والسلام نام في حجر علي حتی غربت الشمس، فلما استیقظ ذکر لہ أنہ فاتتہ العصر فقال: اللہم إنہ کان في طاعتک وطاعة رسولک فارددہا علیہ، فردت حتی صلی العصر وکان ذلک بخیبر، والحدیث صححہ الطحاوی وعیاض،وأخرجہ جماعة منہم الطبراني بسند حسن، وأخطأ من جعلہ موضوعا کابن الجوزي وقواعدنا لا تأباہ․ اھ (شامي: ۲/۱۶-۱۷، کتاب الصلاة، مطلب: لو ردت الشمس بعد غروبہا)
حاصل کلام یہ ہے کہ مذکورہ سوال میں حضرت بلال رضی اللہ تعالی عنہ کا واقعہ غلط ہے اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کا واقعہ صحیح ہے
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال
15/08_2023
15/08_2023