(سوال نمبر 2092)
اگر کسی عورت کو طلاق ہو جائے اور اسکا ایک بچہ بھی ہو تو کیا وہ عدت پوری کرنے سے پہلے نکاح کر سکتی ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علماء کرام و مفتیان شرع متین اس مسئلہ کے متعلق کہ
اگر کسی عورت کو طلاق ہو جائے اور اسکا ایک بچہ بھی ہو تو کیا وہ عدت پوری کرنے سے پہلے نکاح کر سکتی ہے؟ شرعی راہنمائی فرما دیں جزاک اللہ خیرا
سائل:- حمزہ خالد شہر لاہور
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده و نصلي على رسوله الأمين
وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالى عز وجل
آپ نے طلاق کے بابت واضح نہیں کیا ہے کہ کونسی طلاق دیا ہے
اس کی مندرجہ ذیل صورتیں ہو سکتی ہیں
١/ اگر تین طلاقیں دے دی ہو
پھر مطلقہ عدت پوری کرنے کے بعد کسی اور سے نکاح کر سکتی ہے۔ عدت کے اندر نہیں کر سکتی اگرچہ چھوٹا بچہ ۔
اور شوہر اول کے لئے بدون حلالہ رجوع ممکن نہیں ہے ۔
٢/ آگر طلاق بائن دی ہو تو کسی اور سے تو نکاح عدت کے بعد ہی کر لے گی لیکن پہلے خاوند سے ہی نکاح کرنا چاہیے تو عدت کے اندر کر سکتی ہے۔
٣/ اور اگر طلاق رجعی دی ہو ایک یا دو تو عدت کے اندر رجوع ممکن ہے ۔
٤/ رخصتی اور خلوت صحیحہ سے پہلے طلاق ہو جائے تو عدت نہیں ہوتی طلاق کے فورا بعد کسی اور سے نکاح کر سکتی ہے۔
المختصر کسی اور سے نکاح کے لیے عدت پوری کرنا لازم ہے سوائے رخصتی اور خلوت صحیحہ سے پہلے طلاق ہونے کے۔
اب مذکورہ صورت میں اگرچہ بچہ ہے جب تین طلاق مغلظہ دے دی ہو پھر بدون عدت نکاح منعقد نہیں ہوگا اور یہ نکاح باطل ہوگا
قرآن مجید میں ہے
وَلاَ جُنَاحَ عَلَيْكُمْ فِيمَا عَرَّضْتُم بِهِ مِنْ خِطْبَةِ النِّسَاءِ أَوْ أَكْنَنتُمْ فِي أَنفُسِكُمْ عَلِمَ اللّهُ أَنَّكُمْ سَتَذْكُرُونَهُنَّ وَلَـكِن لاَّ تُوَاعِدُوهُنَّ سِرًّا إِلاَّ أَن تَقُولُواْ قَوْلاً مَّعْرُوفًا وَلاَ تَعْزِمُواْ عُقْدَةَ النِّكَاحِ حَتَّى يَبْلُغَ الْكِتَابُ أَجَلَهُ وَاعْلَمُواْ أَنَّ اللّهَ يَعْلَمُ مَا فِي أَنفُسِكُمْ فَاحْذَرُوهُ وَاعْلَمُواْ أَنَّ اللّهَ غَفُورٌ حَلِيمٌo
اور تم پر اس بات میں کوئی گناہ نہیں کہ (دورانِ عدت بھی) ان عورتوں کو اشارتاً نکاح کا پیغام دے دو یا (یہ خیال) اپنے دلوں میں چھپا رکھو، اﷲ جانتا ہے کہ تم عنقریب ان سے ذکر کرو گے مگر ان سے خفیہ طور پر بھی (ایسا) وعدہ نہ لو سوائے اس کے کہ تم فقط شریعت کی (رو سے کنایتاً) معروف بات کہہ دو، اور (اس دوران) عقدِ نکاح کا پختہ عزم نہ کرو یہاں تک کہ مقررہ عدت اپنی انتہا کو پہنچ جائے، اور جان لو کہ اﷲ تمہارے دلوں کی بات کو بھی جانتا ہے تو اس سے ڈرتے رہا کرو، اور (یہ بھی) جان لو کہ اﷲ بڑا بخشنے والا بڑا حلم والا ہے۔‘‘(البقرة، 2: 235)
مذکورہ توضیحات سے معلوم ہوا کہ دورانِ عدت نکاح کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ عدت کے دوران کیا گیا نکاح منعقد نہیں ہوگا۔ اگر کوئی ایسا کرے تو حکم الٰہی کی خلاف ورزی ہوگی۔ اس کا بائیکاٹ کیا جائے گا۔اور دنوں کو الگ کئے جائیں گے ۔
والله ورسوله اعلم بالصواب
اگر کسی عورت کو طلاق ہو جائے اور اسکا ایک بچہ بھی ہو تو کیا وہ عدت پوری کرنے سے پہلے نکاح کر سکتی ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علماء کرام و مفتیان شرع متین اس مسئلہ کے متعلق کہ
اگر کسی عورت کو طلاق ہو جائے اور اسکا ایک بچہ بھی ہو تو کیا وہ عدت پوری کرنے سے پہلے نکاح کر سکتی ہے؟ شرعی راہنمائی فرما دیں جزاک اللہ خیرا
سائل:- حمزہ خالد شہر لاہور
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده و نصلي على رسوله الأمين
وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالى عز وجل
آپ نے طلاق کے بابت واضح نہیں کیا ہے کہ کونسی طلاق دیا ہے
اس کی مندرجہ ذیل صورتیں ہو سکتی ہیں
١/ اگر تین طلاقیں دے دی ہو
پھر مطلقہ عدت پوری کرنے کے بعد کسی اور سے نکاح کر سکتی ہے۔ عدت کے اندر نہیں کر سکتی اگرچہ چھوٹا بچہ ۔
اور شوہر اول کے لئے بدون حلالہ رجوع ممکن نہیں ہے ۔
٢/ آگر طلاق بائن دی ہو تو کسی اور سے تو نکاح عدت کے بعد ہی کر لے گی لیکن پہلے خاوند سے ہی نکاح کرنا چاہیے تو عدت کے اندر کر سکتی ہے۔
٣/ اور اگر طلاق رجعی دی ہو ایک یا دو تو عدت کے اندر رجوع ممکن ہے ۔
٤/ رخصتی اور خلوت صحیحہ سے پہلے طلاق ہو جائے تو عدت نہیں ہوتی طلاق کے فورا بعد کسی اور سے نکاح کر سکتی ہے۔
المختصر کسی اور سے نکاح کے لیے عدت پوری کرنا لازم ہے سوائے رخصتی اور خلوت صحیحہ سے پہلے طلاق ہونے کے۔
اب مذکورہ صورت میں اگرچہ بچہ ہے جب تین طلاق مغلظہ دے دی ہو پھر بدون عدت نکاح منعقد نہیں ہوگا اور یہ نکاح باطل ہوگا
قرآن مجید میں ہے
وَلاَ جُنَاحَ عَلَيْكُمْ فِيمَا عَرَّضْتُم بِهِ مِنْ خِطْبَةِ النِّسَاءِ أَوْ أَكْنَنتُمْ فِي أَنفُسِكُمْ عَلِمَ اللّهُ أَنَّكُمْ سَتَذْكُرُونَهُنَّ وَلَـكِن لاَّ تُوَاعِدُوهُنَّ سِرًّا إِلاَّ أَن تَقُولُواْ قَوْلاً مَّعْرُوفًا وَلاَ تَعْزِمُواْ عُقْدَةَ النِّكَاحِ حَتَّى يَبْلُغَ الْكِتَابُ أَجَلَهُ وَاعْلَمُواْ أَنَّ اللّهَ يَعْلَمُ مَا فِي أَنفُسِكُمْ فَاحْذَرُوهُ وَاعْلَمُواْ أَنَّ اللّهَ غَفُورٌ حَلِيمٌo
اور تم پر اس بات میں کوئی گناہ نہیں کہ (دورانِ عدت بھی) ان عورتوں کو اشارتاً نکاح کا پیغام دے دو یا (یہ خیال) اپنے دلوں میں چھپا رکھو، اﷲ جانتا ہے کہ تم عنقریب ان سے ذکر کرو گے مگر ان سے خفیہ طور پر بھی (ایسا) وعدہ نہ لو سوائے اس کے کہ تم فقط شریعت کی (رو سے کنایتاً) معروف بات کہہ دو، اور (اس دوران) عقدِ نکاح کا پختہ عزم نہ کرو یہاں تک کہ مقررہ عدت اپنی انتہا کو پہنچ جائے، اور جان لو کہ اﷲ تمہارے دلوں کی بات کو بھی جانتا ہے تو اس سے ڈرتے رہا کرو، اور (یہ بھی) جان لو کہ اﷲ بڑا بخشنے والا بڑا حلم والا ہے۔‘‘(البقرة، 2: 235)
مذکورہ توضیحات سے معلوم ہوا کہ دورانِ عدت نکاح کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ عدت کے دوران کیا گیا نکاح منعقد نہیں ہوگا۔ اگر کوئی ایسا کرے تو حکم الٰہی کی خلاف ورزی ہوگی۔ اس کا بائیکاٹ کیا جائے گا۔اور دنوں کو الگ کئے جائیں گے ۔
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال
18/3/2022
18/3/2022