(سوال نمبر 4077)
پڑی ہوئی چیز کو اپنے استعمال میں لانا کیسا ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم و رحمتہ اللہ برکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ ذیل میں کہ ہمارے جہاز میں لوگ کام کرنے اتے ہیں اور کچھ دن رہتے ہیں پھر چلے جاتے ہیں اور اپنا سامان لیکر نہیں جاتے ہیں تو کیا اس سامان کو ہم اپنی استعمال میں لاسکتے ہیں کہ نہیں ؟
سائل:- حامد رضا نوری انڈیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده و نصلي على رسوله الكريم
وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونہ تعالیٰ عزوجل
مذکورہ سامان کو آپ اپنے استعمال میں نہیں لا سکتے ہیں جب لوگ کام کرنے اتے ہیں اسی وقت اجازت لے لیتے کہ سب اپنا سامان لے کر جانا اگر کسی کا کچھ رہ جائے تو میں اسے استمعال کر سکتا ہوں؟ اگر وہ سب لوگ بولے کوئی بات نہیں اگر رہ جائے تو استعمال کر سکتے ہیں پھر رہ جانے پر آپ استعمال کر سکتے ہیں ورنہ نہیں ۔
لقطہ پڑی ہوئی چیز فی الحال جس کا کوئی مالک نظر نہ ائے اگر ہلکی پھلکی چیز ہے جیسے کاغذ قلم یا بسکٹ کھانے پینے والی چیز تو اسے استعمال کر سکتے ہیں رہی مہگی چیز تو اسے خود استعمال نہیں کرسکتے مذکورہ صورت میں اپنا پیسہ ملانے کی ضرورت نہیں ہے زید پر لازم ہے کہ بازاروں شارعِ عام اور لوگوں کے مجمعوں وغیرہ میں اتنے دنوں تک اعلان کرے کہ غالب گمان ہو جائے کہ اب اس کا مالک اسے تلاش نہ کرتا ہو گا۔ فقۂ حنفی کی مشہور ومعروف کتاب
عالمگیری میں ہے
ملتقط گری پڑی چیز اٹھانے والے پر بازاروں اور شارعِ عام ميں اتنے زمانے تک تشہیر لازم ہے کہ ظنِّ غالب ہو جائے کہ مالک اب تلاش نہ کرتا ہوگا۔ یہ مدت پوری ہونے کے بعد اُسے اختیار ہے کہ لقطہ کی حفاظت کرے یا کسی مسکین پر صدقہ کردے۔یاد رہے کہ مصارفِ خیر مثل مسجد اور مدرسہ اہل سنت ومطبع اہل سنت وغیرہ میں بھی صَرف ہوسکتاہے اور اٹھانے والا فقیر ہے تو مذکورہ مدت تک اعلان کے بعد خود اپنے استعمال میں بھی لا سکتا ہے
اگر صدقہ کرنے کے بعد یا فقیر اپنے استعمال میں لانے کے بعد اگر اس کا مالک
آجائے تواسے صدقے کو جائز رکھنے یا نہ رکھنے کا اختیار ہے اگر جائز رکھے گا تو ثواب پائے گا اور جائز نہ رکھے تو اگر وہ چیزموجود ہے اپنی چیز لے لے اور ہلاک ہوگئی ہو تو اسے اختیار ہے کہ ملتقط سے تاوان لے یا مسکین سے، جس سے بھی لے گا وہ دوسرے سے رجوع نہیں کرسکتا۔ یعنی مالک کے حوالے کرنا پڑے گا ۔
کما فی ملتقي الأبحروللملتقط أَن ينْتَفع باللقطة بعد التَّعْرِيف لَو فَقِيراً، وَإِن غَنِياً تصدق بهَا وَلَو على أَبَوَيْهِ أَو وَلَده أَو زَوجته لَو فُقَرَاء، وَإِن كَانَت حقيرةً كالنوى وقشور الرُّمَّان والسنبل بعد الْحَصاد ينْتَفع بهَا بِدُونِ تَعْرِيف، وللمالك أَخذهَا، وَلَايجب دفع اللّقطَة إِلَى مدعيها إلاّ بِبَيِّنَة، وَيحل إِن بَين علامتها من غير جبر۔ (ملتقي الأبحر ١/ ٥٢٩-٥٣١)
صاحب مرآة رحمة الله عليه فرماتے ہیں لقطہ پڑی ہوئی چیز اگر معمولی ہوجس کی تلاش مالک نہ کرے گا نہ اس کے مالک کو ڈھونا ضروری ہے نہ اس کے سنبھالنے اور اعلان کرنے کی ضرورت ہے بلکہ فورًا اپنے استعمال میں لانا جائز ہے۔لقطہ کی احادیث قیمتی چیز کے متعلق ہیں
(المرات ج 3ص 49 مكتبة المدينة)
والله ورسوله أعلم بالصواب
کتبہ :- حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن ضلع سرها نيبال۔17/07/2023
پڑی ہوئی چیز کو اپنے استعمال میں لانا کیسا ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم و رحمتہ اللہ برکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ ذیل میں کہ ہمارے جہاز میں لوگ کام کرنے اتے ہیں اور کچھ دن رہتے ہیں پھر چلے جاتے ہیں اور اپنا سامان لیکر نہیں جاتے ہیں تو کیا اس سامان کو ہم اپنی استعمال میں لاسکتے ہیں کہ نہیں ؟
سائل:- حامد رضا نوری انڈیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده و نصلي على رسوله الكريم
وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونہ تعالیٰ عزوجل
مذکورہ سامان کو آپ اپنے استعمال میں نہیں لا سکتے ہیں جب لوگ کام کرنے اتے ہیں اسی وقت اجازت لے لیتے کہ سب اپنا سامان لے کر جانا اگر کسی کا کچھ رہ جائے تو میں اسے استمعال کر سکتا ہوں؟ اگر وہ سب لوگ بولے کوئی بات نہیں اگر رہ جائے تو استعمال کر سکتے ہیں پھر رہ جانے پر آپ استعمال کر سکتے ہیں ورنہ نہیں ۔
لقطہ پڑی ہوئی چیز فی الحال جس کا کوئی مالک نظر نہ ائے اگر ہلکی پھلکی چیز ہے جیسے کاغذ قلم یا بسکٹ کھانے پینے والی چیز تو اسے استعمال کر سکتے ہیں رہی مہگی چیز تو اسے خود استعمال نہیں کرسکتے مذکورہ صورت میں اپنا پیسہ ملانے کی ضرورت نہیں ہے زید پر لازم ہے کہ بازاروں شارعِ عام اور لوگوں کے مجمعوں وغیرہ میں اتنے دنوں تک اعلان کرے کہ غالب گمان ہو جائے کہ اب اس کا مالک اسے تلاش نہ کرتا ہو گا۔ فقۂ حنفی کی مشہور ومعروف کتاب
عالمگیری میں ہے
ملتقط گری پڑی چیز اٹھانے والے پر بازاروں اور شارعِ عام ميں اتنے زمانے تک تشہیر لازم ہے کہ ظنِّ غالب ہو جائے کہ مالک اب تلاش نہ کرتا ہوگا۔ یہ مدت پوری ہونے کے بعد اُسے اختیار ہے کہ لقطہ کی حفاظت کرے یا کسی مسکین پر صدقہ کردے۔یاد رہے کہ مصارفِ خیر مثل مسجد اور مدرسہ اہل سنت ومطبع اہل سنت وغیرہ میں بھی صَرف ہوسکتاہے اور اٹھانے والا فقیر ہے تو مذکورہ مدت تک اعلان کے بعد خود اپنے استعمال میں بھی لا سکتا ہے
اگر صدقہ کرنے کے بعد یا فقیر اپنے استعمال میں لانے کے بعد اگر اس کا مالک
آجائے تواسے صدقے کو جائز رکھنے یا نہ رکھنے کا اختیار ہے اگر جائز رکھے گا تو ثواب پائے گا اور جائز نہ رکھے تو اگر وہ چیزموجود ہے اپنی چیز لے لے اور ہلاک ہوگئی ہو تو اسے اختیار ہے کہ ملتقط سے تاوان لے یا مسکین سے، جس سے بھی لے گا وہ دوسرے سے رجوع نہیں کرسکتا۔ یعنی مالک کے حوالے کرنا پڑے گا ۔
کما فی ملتقي الأبحروللملتقط أَن ينْتَفع باللقطة بعد التَّعْرِيف لَو فَقِيراً، وَإِن غَنِياً تصدق بهَا وَلَو على أَبَوَيْهِ أَو وَلَده أَو زَوجته لَو فُقَرَاء، وَإِن كَانَت حقيرةً كالنوى وقشور الرُّمَّان والسنبل بعد الْحَصاد ينْتَفع بهَا بِدُونِ تَعْرِيف، وللمالك أَخذهَا، وَلَايجب دفع اللّقطَة إِلَى مدعيها إلاّ بِبَيِّنَة، وَيحل إِن بَين علامتها من غير جبر۔ (ملتقي الأبحر ١/ ٥٢٩-٥٣١)
صاحب مرآة رحمة الله عليه فرماتے ہیں لقطہ پڑی ہوئی چیز اگر معمولی ہوجس کی تلاش مالک نہ کرے گا نہ اس کے مالک کو ڈھونا ضروری ہے نہ اس کے سنبھالنے اور اعلان کرنے کی ضرورت ہے بلکہ فورًا اپنے استعمال میں لانا جائز ہے۔لقطہ کی احادیث قیمتی چیز کے متعلق ہیں
(المرات ج 3ص 49 مكتبة المدينة)
والله ورسوله أعلم بالصواب
کتبہ :- حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن ضلع سرها نيبال۔17/07/2023