(سوال نمبر 4048)
اگر کسی نابالغہ بچی کا نکاح اس کے دادا یا اس کے چچا نے کر دیا تو اب اس بچی کو اختیار ہوگا یا نہیں؟
.....................................
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علماۓ کرام اور مفتیان عظام اس مسئلہ کے متعلق
اگر کسی نابالغہ بچی کا نکاح اس کے دادا یا اس کے چچا نے کر دیا تو اب اس بچی کو اختیار ہوگا یا نہیں؟
سائل:- حبیب مرتضی صدیقی شہر لاہور پاکستان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده و نصلي على رسوله الكريم
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
الجواب بعونہ تعالیٰ عزوجل
باپ دادا چچا جو ولی ہوں ان کا کیا ہوا نکاح شرعاً صحیح اور پکا ہوجاتا ہے وہ لڑکی دوسرے کی منکوحہ ہوجاتی اسے باپ کا تنسیخ کرانا اور شوہر سے طلاق لیے بغیر اس کا نکاح دوسرے لڑکے کے ساتھ کرنا، قطعاً ناجائز اور حرام ہوگا البتہ اگر باپ نے غلط فیصلہ کیا یا حالت نشہ میں اپنی نابالغ اولاد کی شادی کردی یا لالچ میں اکر شادی کی اور پھر لڑکی کو بالغ ہونے پر حق حاصل ہوتا ہے کہ وہ بچپن کے کئے ہوئے نکاح کو برقرار رکھے یا ردّ کر دے۔ اگر لڑکی ردّ کر دے تو نکاح ختم ہو جاتا ہے۔ لہٰذا وہ لڑکی اس نکاح کو قائم رکھنا چاہتی ہے تو رضا مندی کا اظہار کر دے۔ اگر ردّ کرنا چاہتی ہے تو پھر بھی اس کو اختیار ہے کہ اپنی مرضی سے کہیں اور نکاح کر سکتی ہے عند احناف نابالغ لڑکے لڑکیوں کا نکاح جائز ہے تاہم اگر بعد میں باپ کی لاپرواہی حماقت یا لالچ ثابت ہو جائے تو نکاح نہیں ہوگا بالغ ہونے پر لڑکی جہاں چاہے اپنی مرضی سے شادی کر سکتی ہے۔
فتاوی شامی میں ہے
لم يعرف منهما سوء الاختيار مجانة و فسقًا و ان عرف لا يصح النکاح اتفاقًا.
باپ دادا کے نکاح کرنے سے خیار بلوغ ختم اس وقت ہو گا جب ان سے غلط فیصلہ نہ ہو لاپرواہی یا فسق کی وجہ سے اور اگر غلط فیصلہ معلوم ہو جائے تو بالاتفاق نکاح غلط ہے ( الدر المختار، 3: 66، 67، بيروت، لبنان: دارالفکر)
مزید وضاحت فرماتے ہیں
أن المراد بالأب من ليس بسکران ولا عرف بسوء الاختيار.
باپ سے مراد وہ جو نشہ میں بھی نہ ہو اور جو غلط فیصلہ کرنے والا بھی نہ ہو۔
(شامي، رد المحتار، 3: 67، بيروت، لبنان: دارالفکر)
بالغ ہونے کے بعد لڑکی کو حق ہوتا ہے کہ وہ نابالغ عمر میں کئے ہوئے نکاح کا انکار کر دے اور اپنی مرضی سے کہیں اور نکاح کر لے۔
فتاوی عالمگیری میں ہے
واذا أدرکت بالحيض لا بأس بأن تختار نفسها مع رؤية الدم.
اگر لڑکی حیض کے ذریعے بالغ ہوئی تو خون دیکھتے ہی اسے اختیار حاصل ہو گیا خواہ بچپن کے نکاح کو برقرار رکھے یا رد کر دے۔(الفتاوی الهندية، 1: ۲86، بيروت، لبنان: دارالفکر)
مذکورہ توضیحات سے معلوم ہوا کہ
باپ کو اپنی نابالغ اولاد پر ولایتِ تامہ حاصل ہوتی ہے جس کی وجہ سےوہ اپنی نابالغ اولاد کا نکاح ان کی رضامندی اور اجازت کے بغیر بھی کرا سکتا ہےاور شریعت نے یہ اختیار والد کو اس کی فطری ہمدردی ،شفقت اور اولاد کے حق میں بہتر سے بہتر فیصلہ کرنے کی وجہ سے دیاگیا ہے یہی وجہ ہے کہ اولاد کو بالغ ہونے کے بعد اپنے والد کے کرائے ہوئے نکاح کو فسخ کرنے کا اختیار نہیں تاہم جہاں کہیں یہ شفقت اور ہمدردی مفقود ہو اور باپ نے اپنے ذاتی مفاد یا لالچ کی بنیادپر بیٹی کا نکاح کرایا ہو تو ایسی صورت میں باپ کا حق ولایت متاثر ہوجاتا ہے اور لڑکی کو بالغ ہونے کے بعد نکاح کو فسخ کرنے کا اختیار مل جاتاہے۔
یاد رہے کہ اگر باپ نے بیٹی کا نکاح کرانے میں مفاد پرستی سے کام نہ لیا ہو تو ایسی نابالغ لڑکی کو بالغ ہونے کے بعد نکاح کو فسخ کرنے کا اختیار حاصل نہیں ہوگا۔اور اگر باپ نے اپنے کسی ذاتی مفاد کی بنیاد پر نکاح کرایا ہو تو پھر لڑکی کو بالغ ہونے کے بعد نکاح کو فسخ کرنے کا اختیار حاصل ہوگا۔
فتاوی ہندیہ میں ہے
فإن زوجهما الأب والجد فلا خيار لهما بعد بلوغهما.(الفتاوى الهندية،كتاب النكاح،الباب الرابع: في الأولياء ج:1،ص:351)
ہدایہ میں ہے
فإن زوجهما الأب أو الجد يعني الصغير والصغيرة " فلا خيار لهما بعد بلوغهما لأنهما كاملا الرأي وافرا الشفقة فيلزم العقد بمباشرتهما كما إذا باشراه برضاهما بعد البلوغ ".(الهداية،كتاب النكاح،باب في الأولياءوالأكفاء:ج:3،ص:34)
ومعنى هذا الكلام:أنه لا يجوز العقد عندهما؛لأن الولاية مقيدة بشرط النظر فعند فواته يبطل العقد.(الهداية،كتاب النكاح،فصل في الكفاءةج:3،ص:48)
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب
کتبہ :- حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لہان 18خادم دار الافتاء البرکاتی علماء فاونڈیشن ضلع سرہا نیپال
14/07/2023
اگر کسی نابالغہ بچی کا نکاح اس کے دادا یا اس کے چچا نے کر دیا تو اب اس بچی کو اختیار ہوگا یا نہیں؟
.....................................
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علماۓ کرام اور مفتیان عظام اس مسئلہ کے متعلق
اگر کسی نابالغہ بچی کا نکاح اس کے دادا یا اس کے چچا نے کر دیا تو اب اس بچی کو اختیار ہوگا یا نہیں؟
سائل:- حبیب مرتضی صدیقی شہر لاہور پاکستان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده و نصلي على رسوله الكريم
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
الجواب بعونہ تعالیٰ عزوجل
باپ دادا چچا جو ولی ہوں ان کا کیا ہوا نکاح شرعاً صحیح اور پکا ہوجاتا ہے وہ لڑکی دوسرے کی منکوحہ ہوجاتی اسے باپ کا تنسیخ کرانا اور شوہر سے طلاق لیے بغیر اس کا نکاح دوسرے لڑکے کے ساتھ کرنا، قطعاً ناجائز اور حرام ہوگا البتہ اگر باپ نے غلط فیصلہ کیا یا حالت نشہ میں اپنی نابالغ اولاد کی شادی کردی یا لالچ میں اکر شادی کی اور پھر لڑکی کو بالغ ہونے پر حق حاصل ہوتا ہے کہ وہ بچپن کے کئے ہوئے نکاح کو برقرار رکھے یا ردّ کر دے۔ اگر لڑکی ردّ کر دے تو نکاح ختم ہو جاتا ہے۔ لہٰذا وہ لڑکی اس نکاح کو قائم رکھنا چاہتی ہے تو رضا مندی کا اظہار کر دے۔ اگر ردّ کرنا چاہتی ہے تو پھر بھی اس کو اختیار ہے کہ اپنی مرضی سے کہیں اور نکاح کر سکتی ہے عند احناف نابالغ لڑکے لڑکیوں کا نکاح جائز ہے تاہم اگر بعد میں باپ کی لاپرواہی حماقت یا لالچ ثابت ہو جائے تو نکاح نہیں ہوگا بالغ ہونے پر لڑکی جہاں چاہے اپنی مرضی سے شادی کر سکتی ہے۔
فتاوی شامی میں ہے
لم يعرف منهما سوء الاختيار مجانة و فسقًا و ان عرف لا يصح النکاح اتفاقًا.
باپ دادا کے نکاح کرنے سے خیار بلوغ ختم اس وقت ہو گا جب ان سے غلط فیصلہ نہ ہو لاپرواہی یا فسق کی وجہ سے اور اگر غلط فیصلہ معلوم ہو جائے تو بالاتفاق نکاح غلط ہے ( الدر المختار، 3: 66، 67، بيروت، لبنان: دارالفکر)
مزید وضاحت فرماتے ہیں
أن المراد بالأب من ليس بسکران ولا عرف بسوء الاختيار.
باپ سے مراد وہ جو نشہ میں بھی نہ ہو اور جو غلط فیصلہ کرنے والا بھی نہ ہو۔
(شامي، رد المحتار، 3: 67، بيروت، لبنان: دارالفکر)
بالغ ہونے کے بعد لڑکی کو حق ہوتا ہے کہ وہ نابالغ عمر میں کئے ہوئے نکاح کا انکار کر دے اور اپنی مرضی سے کہیں اور نکاح کر لے۔
فتاوی عالمگیری میں ہے
واذا أدرکت بالحيض لا بأس بأن تختار نفسها مع رؤية الدم.
اگر لڑکی حیض کے ذریعے بالغ ہوئی تو خون دیکھتے ہی اسے اختیار حاصل ہو گیا خواہ بچپن کے نکاح کو برقرار رکھے یا رد کر دے۔(الفتاوی الهندية، 1: ۲86، بيروت، لبنان: دارالفکر)
مذکورہ توضیحات سے معلوم ہوا کہ
باپ کو اپنی نابالغ اولاد پر ولایتِ تامہ حاصل ہوتی ہے جس کی وجہ سےوہ اپنی نابالغ اولاد کا نکاح ان کی رضامندی اور اجازت کے بغیر بھی کرا سکتا ہےاور شریعت نے یہ اختیار والد کو اس کی فطری ہمدردی ،شفقت اور اولاد کے حق میں بہتر سے بہتر فیصلہ کرنے کی وجہ سے دیاگیا ہے یہی وجہ ہے کہ اولاد کو بالغ ہونے کے بعد اپنے والد کے کرائے ہوئے نکاح کو فسخ کرنے کا اختیار نہیں تاہم جہاں کہیں یہ شفقت اور ہمدردی مفقود ہو اور باپ نے اپنے ذاتی مفاد یا لالچ کی بنیادپر بیٹی کا نکاح کرایا ہو تو ایسی صورت میں باپ کا حق ولایت متاثر ہوجاتا ہے اور لڑکی کو بالغ ہونے کے بعد نکاح کو فسخ کرنے کا اختیار مل جاتاہے۔
یاد رہے کہ اگر باپ نے بیٹی کا نکاح کرانے میں مفاد پرستی سے کام نہ لیا ہو تو ایسی نابالغ لڑکی کو بالغ ہونے کے بعد نکاح کو فسخ کرنے کا اختیار حاصل نہیں ہوگا۔اور اگر باپ نے اپنے کسی ذاتی مفاد کی بنیاد پر نکاح کرایا ہو تو پھر لڑکی کو بالغ ہونے کے بعد نکاح کو فسخ کرنے کا اختیار حاصل ہوگا۔
فتاوی ہندیہ میں ہے
فإن زوجهما الأب والجد فلا خيار لهما بعد بلوغهما.(الفتاوى الهندية،كتاب النكاح،الباب الرابع: في الأولياء ج:1،ص:351)
ہدایہ میں ہے
فإن زوجهما الأب أو الجد يعني الصغير والصغيرة " فلا خيار لهما بعد بلوغهما لأنهما كاملا الرأي وافرا الشفقة فيلزم العقد بمباشرتهما كما إذا باشراه برضاهما بعد البلوغ ".(الهداية،كتاب النكاح،باب في الأولياءوالأكفاء:ج:3،ص:34)
ومعنى هذا الكلام:أنه لا يجوز العقد عندهما؛لأن الولاية مقيدة بشرط النظر فعند فواته يبطل العقد.(الهداية،كتاب النكاح،فصل في الكفاءةج:3،ص:48)
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب
کتبہ :- حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لہان 18خادم دار الافتاء البرکاتی علماء فاونڈیشن ضلع سرہا نیپال
14/07/2023