(سوال نمبر ١٤٦)
کیا شوہر کے انتقال کے بعدسسر اپنے بہو سے نکاح کرسکتا ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام و مفتیان عظام کہ خاوند کے انتقال کے بعد کیا سسر اپنے بہو سے نکاح کر سکتا ہے جواب عنایت فرمائیں ۔
سائل:- محمد ابراہیم رضا شمسی نظمی سمردہی ٹولہ مٹیہانی نگر پالیکا نیپال۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونشكره ونصلي على رسوله الأمين.
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
الجواب بعونه تعالیٰ عز وجل.
صورت مستفسره میں
جن سے نکاح حرام ہیں ان کی تین قسمیں ہیں ۔
١ محرمات نسبيہ ،٢ محرمات رضاعي ، ٣ محرمات مصاہرت،
سسر تيسرے قسم میں داخل ہے یعنی بیٹے کے حیات یا بعد الممات کبھی بھی سسر کا بہو سے نکاح کرنا حلال نہیں ۔حر مت مصاہرت کی فہرست لمبی ہے بہار شریعت ملاحظہ فرمائیں ۔۔
حرمت مصاہرت کا ذکر قرآن مجید میں بھی ہے ۔جیساکہ اللہ رب العزت فرماتا ہے ۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
حُرِّمَتْ عَلَيْكُمْ أُمَّهَاتُكُمْ وَبَنَاتُكُمْ وَأَخَوَاتُكُمْ وَعَمَّاتُكُمْ وَخَالاَتُكُمْ وَبَنَاتُ الْأَخِ وَبَنَاتُ الْأُخْتِ وَأُمَّهَاتُكُمُ اللاَّتِي أَرْضَعْنَكُمْ وَأَخَوَاتُكُم مِّنَ الرَّضَاعَةِ وَأُمَّهَاتُ نِسَآئِكُمْ وَرَبَائِبُكُمُ اللاَّتِي فِي حُجُورِكُم مِّن نِّسَآئِكُمُ اللاَّتِي دَخَلْتُم بِهِنَّ فَإِن لَّمْ تَكُونُواْ دَخَلْتُم بِهِنَّ فَلاَ جُنَاحَ عَلَيْكُمْ وَحَلاَئِلُ أَبْنَائِكُمُ الَّذِينَ مِنْ أَصْلاَبِكُمْ وَأَن تَجْمَعُواْ بَيْنَ الْأُخْتَيْنِ إَلاَّ مَا قَدْ سَلَفَ إِنَّ اللّهَ كَانَ غَفُورًا رَّحِيمًا.
تم پر تمہاری مائیں اور تمہاری بیٹیاں اور تمہاری بہنیں اور تمہاری پھوپھیاں اور تمہاری خالائیں اور بھتیجیاں اور بھانجیاں اور تمہاری (وہ) مائیں جنہوں نے تمہیں دودھ پلایا ہو اور تمہاری رضاعت میں شریک بہنیں اور تمہاری بیویوں کی مائیں (سب) حرام کر دی گئی ہیں، اور (اسی طرح) تمہاری گود میں پرورش پانے والی وہ لڑکیاں جو تمہاری ان عورتوں (کے بطن) سے ہیں جن سے تم صحبت کر چکے ہو (بھی حرام ہیں)، پھر اگر تم نے ان سے صحبت نہ کی ہو تو تم پر (ان کی لڑکیوں سے نکاح کرنے میں) کوئی حرج نہیں، اور تمہارے ان بیٹوں کی بیویاں (بھی تم پر حرام ہیں) جو تمہاری پشت سے ہیں، اور یہ (بھی حرام ہے) کہ تم دو بہنوں کو ایک ساتھ (نکاح میں) جمع کرو سوائے اس کے کہ جو دورِ جہالت میں گزر چکا۔ بیشک اللہ بڑا بخشنے والا مہربان ہے۔ (النساء، 4: 23)
کما فی الفتاوی الہندیہ
الْقِسْمُ الثَّانِي الْمُحَرَّمَاتُ بِالصِّهْرِيَّةِ: وَهِيَ أَرْبَعُ فِرَقٍ:
(الْأُولَى) أُمَّهَاتُ الزَّوْجَاتِ وَجَدَّاتُهُنَّ مِنْ قِبَلِ الْأَبِ وَالْأُمِّ وَإِنْ عَلَوْنَ.
(وَالثَّانِيَةُ) بَنَاتُ الزَّوْجَةِ وَبَنَاتُ أَوْلَادِهَا وَإِنْ سَفَلْنَ بِشَرْطِ الدُّخُولِ بِالْأُمِّ، كَذَا فِي الْحَاوِي الْقُدْسِيِّ سَوَاءٌ كَانَتْ الِابْنَةُ فِي حِجْرِهِ أَوْ لَمْ تَكُنْ، كَذَا فِي شَرْحِ الْجَامِعِ الصَّغِيرِ لِقَاضِي خَانْ.
وَأَصْحَابُنَا مَا أَقَامُوا الْخَلْوَةَ مَقَامَ الْوَطْءِ فِي حُرْمَةِ الْبَنَاتِ هَكَذَا فِي الذَّخِيرَةِ فِي نَوْعِ مَا يُسْتَحَقُّ بِهِ جَمِيعُ الْمَهْرِ.
(وَالثَّالِثَةُ) حَلِيلَةُ الِابْنِ وَابْنِ الِابْنِ وَابْنِ الْبِنْتِ وَإِنْ سَفَلُوا دَخَلَ بِهَا الِابْنُ أَمْ لَا. وَلَا تَحْرُمُ حَلِيلَةُ الِابْنِ الْمُتَبَنَّى عَلَى الْأَبِ الْمُتَبَنِّي هَكَذَا فِي مُحِيطِ السَّرَخْسِيِّ.
(وَالرَّابِعَةُ) نِسَاءُ الْآبَاءِ وَالْأَجْدَادِ مِنْ جِهَةِ الْأَبِ أَوْ الْأُمِّ وَإِنْ عَلَوْا فَهَؤُلَاءِ مُحَرَّمَاتٌ عَلَى التَّأْبِيدِ نِكَاحًا وَوَطْئًا، كَذَا فِي الْحَاوِي الْقُدْسِيِّ.
وَتَثْبُتُ حُرْمَةُ الْمُصَاهَرَةِ بِالنِّكَاحِ الصَّحِيحِ ﴿ الباب الثالث في بيان المحرمات الفتاوى الهنديه ﴾
والله ورسوله أعلم بالصواب۔
کتبہ :- حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب القادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم البرقي دار الإفتاء ،سني شرعي بورڈ آف نیپال ۔
٢/١٠/٢٠٢٠