Type Here to Get Search Results !

امام حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو زہر ان کی بیوی نے دیا کیا یہ صحیح ہے؟

 (سوال نمبر 5096)
امام حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو زہر ان کی بیوی نے دیا کیا یہ صحیح ہے؟
....................................
السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ
 کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ کچھ لوگ بیان کرتے ہیں کہ امام حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو زہر انکی بیوی نے دیا کیا یہ صحیح ہے برائے مہربانی جواب عنایت فرمائیں
سائل:-آصف اسمٰعیلی بنارس انڈیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده و نصلي على رسوله الكريم 
وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته 
الجواب بعونه تعالى عزوجل 
سیدنا امام حسن رضی اللہ عنہ کو ان کی بیوی نے زہر نہیں دیا یہ اہل تشیع کی من گھڑت کہانی ہے۔کتب سیر میں یہ واقعہ ذکر ہے پر یا تو نہایت ضعیف یا موضوع ہے 
انساب الاشراف لاحمد بن یحیی البلاذری میں ایک روایت ہے 
وقال الهيثم بن عدی : دسّ معاوية إلی ابنة سهيل بن عمرة امرأة الحسن مأة ألف دينار علی أن تسقيه شربة بعث بها إليها ففعلت
۔
 ہیثم بن عدی نے کہا ہے کہ معاویہ رضی اللہ عنہ نے سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کی بیوی سہیل بنت عمرہ کو ایک ہزار دینا کے عوض سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کو زہر پلانے پر اکسایا ۔ اس نے زہر اس کے پاس بھیجی تو اس نے ایسا کر دیا (انساب الاشراف لاحمد بن یحیی البلاذری : ۵۹/۳)
ڈاکٹر فیض احمد چشتی فرماتے ہیں 
یہ روایت موضوع (جھوٹ کا پلندا) ہے 
اس کا راوی ہیثم بن عدی بالاتفاق ’’کذاب‘‘ اور ’’متروک الحدیث ہے ۔ اس لیے شیعہ شنیعہ اس کی روایات کو سینے سے لگائے بیٹھے ہیں ۔
قال الإمام ابن سعد : أنا محمّد بن عمر : نا عبدالله بن جعفر عن عبد الله بن حسن قال : كان الحسن بن علی رجلا كثير نكاح النساء ، وكنّ أقلّ ما يحظين عنده ، وكان قلّ امرأة يتزوّجها إلّا أحبّته وضنت به ، فيقال : إنّه كان سقی ، ثم أفلت ، ثم سقی فافلت ، ثمّ كانت الآخرة توفّی فيها ، فلمّا حضرته الوفاة ، قال الطبيب ، وهو يختلف إليه : هذا رجل قد قطع السم أمعاءه ، فقال الحسين : يا أبا محمّد ! خبّرنی من سقاك السمّ ، قال : ولم يا أخی ؟ قال : أقتله ، واللہ قبل أن أدفنك ، أو لا أقدر عليه ، أو يكون بأرض أتكلّف الشخوص إليه ، فقال : يا أخی ! إنّما هذه الدنيا ليال فانية دعه ، حتّی ألتقی أنا وهو عند اللہ ، فأبی أن يسمّيه ، وقد سمعت بعض من يقول : كان معاوية قد تلطّف لبعض خدمه أن يسقيه سمّا
عبداللہ بن حسن بیان کرتے ہیں کہ سیدنا حسن بن علی رضی اللہ عنہ عورتوں سے بہت زیادہ نکاح کرتے تھے۔ عورتیں ان کے پاس بہت کم عرصہ گزار پاتیں۔ تقریباً سب عورتیں، جن سے آپ شادی کرتے ، وہ آپ سے محبت کرتیں۔ کہا جاتا ہے کہ ان کو زہر پلایا گیا، لیکن وہ جانبر ہو گئے۔ پھر زہر پلایا گیا، لیکن وہ پھر جانبر ہو گئے۔ جب آخری دفعہ تھی تو وہ اس میں فوت ہو گئے ۔ جب ان کی وفات کا وقت حاضر ہوا تو طبیب نے ان کی طرف آتے ہوئے کہا: یہ ایسا آدمی ہے، جس کی انتڑیاں زہر نے کاٹ دی ہیں۔ حسین رضی اللہ عنہ نے کہا : اے ابومحمد ! مجھے بتائیے کہ آپ کو زہر کس نے پلائی ہے؟ آپ رضی اللہ عنہ نے پوچھا : کیوں اے بھائی؟ امام حسین رضی اللہ عنہ نے کہا : اللہ کی قسم میں اسے آپ کو دفن کرنے سے پہلے قتل کر دوں گا یا اس پر قادر نہ ہو سکوں گا یا وہ ایسی زمین میں ہو گا ، جہاں میرا داخل ہونا مشکل ہو گا ۔ اس پر حسن رضی اللہ عنہ نے فرمایا : اے میرے بھائی ! یہ دنیا چند فانی راتوں پر مبنی ہے ۔ اس شخص کو چھوڑ، میں اسے اللہ کے ہاں مل لوں گا ۔ یہ کہہ کر انہوں نے اس کا نام بتانے سے انکار کر دیا ۔ میں نے بعض لوگوں سے سنا ہے کہ معاویہ رضی اللہ عنہ نے حسین رضی اللہ عنہ کے کسی خادم کو زہر پلانے پر ورغلایا تھا ۔ (تاریخ ابن عساکر : ۲۸۲/۱۳،۲۸۳)
یہ روایت سخت ترین ضعیف‘‘ ہے ۔ اس کا راوی محمد بن عمر الواقدی ’’کذاب‘‘ ہے ۔ اس میں ایک اور علت بھی ہے ۔
ابوبکر بن حفص بیان کرتے ہیں : توفّی الحسن بن علی وسعد بن أبی وقّاص فی أيّام بعد ما مضی من إمارة معاوية عشر سنين ، وكانو يرون أنّه سقاهما سمّا ۔
 سیدنا حسن بن علی رضی اللہ عنہما اور سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ، معاویہ رضی اللہ عنہ کے عہد کے دس سال گزرنے کے بعد فوت ہوئے۔ لوگوں کا خیال تھا کہ معاویہ رضی اللہ عنہ نے ان دونوں کو زہر پلایا تھا ۔ (مقال الطالبین لابی الفرج علی بن الحسین الاصبہانی : ص ۲۰)
1/ یہ روایت شیطان لعین نے گھڑی ہے ، جو رافضیوں کے ہاتھ لگ گئی ہے ۔ انہوں نے اس کو اپنے مذہب وعقیدہ پر دلیل بنا لیا ہے ۔
صاحبِ کتاب اموی شیعہ ہے ۔ اس کے بارے میں توثیق ثابت نہیں ۔ اس کے شاگرد محمد بن ابی الفوارس کہتے ہیں : وكان قبل أن يموت اختلط.’’یہ اپنی موت سے پہلے بدحواس ہو گیا تھا ۔ (تاریخ بغداد للخطیب : ۳۹۸/۱۱)
(2) اس کے راوی احمد بن عبیداللہ بن عمار کے بارے میں امام خطیب بغدادی فرماتے ہیں : و كان يتشيّع.’’یہ شیعہ مذہب سے تعلق رکھتا تھا ۔ (تاریخ بغداد : ۲۵۲/۴)
حافظ ذہبی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں : من رؤوس الشيعة.’’یہ شیعہ کے سرداروں میں سے تھا ۔ (میزان الاعتدال للذہبی : ۱۱۸/۱)
اس کے بارے میں ادنیٰ کلمۂ توثیق بھی ثابت نہیں ۔
(3) اس کا مرکزی راوی عیسیٰ بن مہران ہے ۔ اس کے بارے میں حافظ ذہبی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں : رافضيّ، كذّاب.’’یہ رافضی اور بہت بڑا جھوٹا تھا ۔ (میزان الاعتدال للذہبی : ۳۲۴/۳)
امام ابوحاتم الرازی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ یہ کذاب آدمی تھا ۔ (الجرح والتعدیل : ۲۹۰/۶)
امام ابنِ عدی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں : حدّث بأحاديث موضوعة مناكير، محترق في الرفض.’’اس نے بہت سی من گھڑت اور منکر روایات بیان کی ہیں۔ یہ کٹر قسم کا رافضی تھا ۔ (الکامل لابن عدی : ۲۶۰/۵)
نیز فرماتے ہیں :والضعف بيّن علی حديثه ۔ ’’اس کی حدیث پر ضعف واضح ہے ۔ (الکامل لابن عدی : ۲۶۱/۵)
امام دارقطنی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں : رجل سوء، ومذهب سوء.’’آدمی بھی بُرا تھا اور اس کا مذہب بھی بُراتھا ۔ (الضعفاء والمتروکون للدارقطنی : ۴۱۸)
امام خطیب بغدادی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں : كان عيسیٰ بن مهران من شياطين الرافضة ومردتهم، ووقع إليّ كتاب من تصنيفه في الطعن علی الصحابة وتضليلهم وإكفارهم وتفسيقهم، فوالله لقد قف شعري عند نظري فيه، وعظم تعجّبي ممّا أودع ذلك الكتاب من الأحاديث الموضوعة ۔ ’’عیسیٰ بن مہران شیاطین اور لعین قسم کے رافضیوں میں سے تھا۔ مجھے اس کی تصنیفات میں سے ایک کتاب ملی، جو کہ صحابہ کرام پر طعن، ان کو گمراہ قرار دینے، ان کو فاسق کہنے اور ان کی تکفیر پر مبنی تھی۔ اللہ کی قسم ! اس کتاب کو دیکھتے ہوئے میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے اور اس کتاب میں اس نے جو من گھڑت احادیث ذکر کی تھیں، ان سے میں بڑا متعجب ہوا ۔ (تاریخ بغداد للخطیب : ۱۶۷/۱۱)
لسان المیزان ( ۴۰۷/۴) میں اس کے حالات لکھتے ہوئے کسی ناسخ نے غلطی سے ”ولحقه ابن جرير“ (ابنِ جریر اس کو ملے تھے) کی بجائے ”وثّقہ ابن جریر“ (ابنِ جریر نے اسے ثقہ قرار دیا ہے) لکھ دیا ہے۔
اس کذاب کی روایت حضرت سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے خلاف پیش کرنا انصاف کا خون کرنے کے مترادف ہے ۔ حیرانی کی بات ہے کہ یہ لوگ یوم ِ حساب سے غافل ہیں۔ کیا یہ خیال کرتے ہیں کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کے خلاف ان کے ہاتھوں کی لکھی ہوئی تحریروں اور زبان سے نکلی ہوئی باتوں کے بارے میں کوئی پوچھ گچھ نہ ہو گی؟
عمیر بن اسحاق بیان کرتے ہیں : كنت مع الحسن والحسين في الدار ، فدخل الحسن المخرج ، ثمّ خرج ، فقال : لقد سقيت السمّ ۔
میں حسن اور حسین رضی اللہ عنہما کے ساتھ گھر میں تھا۔ سیدنا حسن رضی اللہ عنہ دروازے میں داخل ہوئے، پھر باہر آئے اور فرمایا : میں نے زہر پیا ہے ۔ (مقال الطالبین لابی الفرج الاصبہانی الشیعی الاموی : ص ۲۰)
اس من گھڑت روایت کا معنیٰ ومفہوم وہی ہے اور اس میں علتیں بھی بعینہٖ وہی ہیں، جو اس سے پہلے والی روایت میں ہیں ۔
ابنِ جعدۃ کہتے ہیں : كانت جعدة بنت الأشعب بن قيس تحت الحسن بن علی ، فدسّ إليها يزيد أن سمي حسنا ، إنّی مزوّجك ، ففعلت ، فلمّا مات الحسن بعثت إليه الجعدة ، تسأل يزيد الوفاء بما وعدها ، فقال : إنّا والله لم نرضك للحسن ، فنرضاك لأنفسنا ۔ ’’جعدہ بنت الاشعت بن قیس سیدنا حسن بن علی رضی اللہ عنہ کے نکاح میں تھی۔ یزید نے اسے بہلایا کہ تُو حسن کو زہر دے دے تو میں تجھ سے نکاح کر لوں گا۔ اس نے ایسا کر دیا۔ جب حسن رضی اللہ عنہ فوت ہو گئے تو جعدہ نے یزید سے اپنے وعدے کو وفا کرنے کا مطالبہ کیا۔ اس نے کہا: اللہ کی قسم ! ہم نے تجھے حسن کے لیے پسند نہیں کیا تھا، اپنے لیے کیسے کریں ۔ (تاریخ ابن عساکر : ۲۸۴/۱۳، المنتظم لابن الجوزی : ۲۲۶/۵)
یہ جھوٹا قصہ ہے۔(1) اس کا گھڑنے والا یزید بن عیاض بن جعدۃ اللیثی ہے۔ امام یحییٰ بن معین، امام علی بن المدینی، امام بخاری، امام مسلم، امام نسائی، امام ابنِ عدی، امام ابوزرعہ الرازی، امام ابوحاتم الرازی، امام ساجی، امام جوزجانی، امام عمرو بن علی الفلاس وغیرہم نے اسے ’’ضعیف، منکرالحدیث ‘‘ اور ’’متروک الحدیث‘‘ کے الفاظ کے ساتھ مجروح کیا ہے۔ اس کے بارے میں ادنیٰ کلمۂ توثیق بھی ثابت نہیں ہے۔
(2) اس کے دوسرا راوی محمد بن خلف بن المرزبان الآجری کے بارے میں متقدمین ائمہ محدثین میں سے کسی نے توثیق کا کوئی کلمہ استعمال نہیں کیا، بلکہ امام دارقطنی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:هو أخباری، ليّن.’’یہ تاریخ دان تھا اور کمزور راوی تھا ۔ (سوالات السہمی : ۱۰۴)
لہٰذا حافظ ذہبی رحمة اللہ علیہ (سیر اعلام النبلاء : ۲۶۴/۱۴) کا اسے صدوق قرار دینا صحیح نہیں ۔
عن أمّ موسی أنّ جعدة بنت الأشعث ابن قيس سقت الحسن السمّ ، فاشتكی منه شكاة ، قال : فكان يوضع تحته طست وترفع أخری نحوا من أربعين يوما
۔ ’’ام موسیٰ بیان کرتی ہیں کہ جعدۃ بنت الاشعث بن قیس نے سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کو زہر پلایا۔ اس سے آپ بیمار ہو گئے۔ آپ کے نیچے ایک برتن رکھا جاتا اور دوسرا اُٹھایا جاتا۔ تقریباً چالیس دن تک یہ معاملہ رہا ۔ (تاریخ ابن عساکر : ۲۸۴/۱۳)
اس کی سند ’’ضعیف‘‘ ہے۔یعقوب نامی راوی کا تعین درکار ہے، نیز ام ِ موسیٰ سے اس کا سماع مطلوب ہے۔
وہ روایات جن میں حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ یا یزید لعین کے بارے میں ہے کہ انہوں نے حضرت سیدنا امام حسن ابن علی رضی اللہ عنہما کو زہر دیا تھا ، ان کا جھوٹا ہونا واضح ہو گیا ہے۔ ان سندوں کے علاوہ اگر کسی کے پاس کوئی سند ہے تو وہ ہمیں پیش کرے ۔ ہم اس کا تجزیہ کریں گے ۔ سند دین ہے ۔ بے سند اور ’’ضعیف‘‘ روایات پیش کرنا اور ان پر اپنے عقیدہ وعمل کی بنیاد ڈالنا اہل حق کا وطیرہ نہیں۔ نیز ’’ضعیف‘‘ اور بے سروپا روایات صحابہ کرام کے خلاف پیش کرنا صحیح نہیں، کیونکہ یہ بدگمانی کے زمرہ میں آئے گا۔بدگمانی سب سے بڑا جھوٹ ہے۔دوسری بات یہ ہے کہ یہ جھوٹی روایات رافضی شیعوں کے عقیدہ کے منافی بھی ہیں، کیونکہ شیعہ مذہب کی معتبر کتابوں میں لکھا ہے:إنّ الأئمّة يعلمون متي يموتون، وإنّهم لا يموتون إلّا باختيارهم.’’ائمہ جانتے ہوتے ہیں کہ کب مریں گے اور وہ اپنے اختیار ہی سے مرتے ہیں ۔ (اصول الکافی الکلینی : ۲۵۸/۱، الفصول المہمۃ للجرالعاملی : ص ۱۵۵)
شیملا باقر مجلسی صاحب لکھتا ہے : لم يكن إمام إلّا مات مقتولا أو مسموما ۔ ’’کوئی امام نہیں، مگر وہ قتل یا زہر کے ذریعے مرا ہے ۔ (بحار الانوار للمجلسی : ۳۶۴/۴۳)
جب ان کا عقیدہ ہے کہ ائمہ عالم الغیب ہوتے ہیں تو حضرت سیدنا امام حسن بن علی رضی اللہ عنہما کو علم کیوں نہ ہو سکا کہ اس کھانے میں زہر ہے؟ یہ کہنا کہ حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے حضرت سیدنا امام حسن بن علی رضی اللہ عنہما کو زہر دیا ہے ، بہت بڑا جھوٹ اور اتہام ہے ، کیونکہ اس سلسلہ میں تمام روایات من گھڑت اور خود ساختہ ہیں (محرر ڈاکٹر فیض احمد چشتی پاکستانی)
واللہ و رسولہ اعلم بالصوب 
*كتبه محمد مجيب قادري لہان 18خادم دار الافتاء البرکاتی علماء فاونڈیشن ضلع سرہا نیپال*
2707/2023

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area