Type Here to Get Search Results !

اگر ہندو پرائمنسٹر کے گھر کا کوئی فرد مر جائے تو ایسوں کے غم میں شریک ہو سکتے ہیں یا نہیں ؟

(سوال نمبر 4041)
اگر ہندو پرائمنسٹر کے گھر کا کوئی فرد مر جائے تو ایسوں کے غم میں شریک ہو سکتے ہیں یا نہیں ؟
.....................................
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته 
کیا فرماتے ہیں علماء دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل میں کہ ہم جس ملک میں رہتے ہیں وہاں کا پرائمنسٹر منتریز وغیرہ سب غیر مسلم ہندو لوگ ہیں ایسے حالات میں اگر ہندو پرائمنسٹر کے گھر کا کوئی فرد مر جائے تو ایسوں کے غم میں شریک ہو سکتے ہیں یا نہیں ؟ اگر ہونا چاہیں یا کچھ لکھنا بولنا چاہیں تو اس کی کیا صورت ہو سکتی ہے؟
کیونکہ ہم اس ملک میں رہتے ہیں اور وہ ہمارے پرائمنسٹر ، یا ہمارے منتری وغیرہ ہیں ،، لھذا جواب دے کر شکریہ کا موقع دیں ، نوازش ہوگی ،
سائل:- بلال برکاتی نیپال
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده و نصلي على رسوله الكريم 
وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته 
الجواب بعونہ تعالیٰ عزوجل 
حالات حاضرہ کے پیش بالخصوص نیپال جہاں مسلم آبادی بہت کم ہے اور سیاست میں مسلمانوں کی پکڑ اور پہنچ نہ کے برابر ہے اس لئے مصلحت کے پیش نظر رضا و رغبت سے نہیں بلکہ رسما مندرجہ ذیل الفاظ میں تعزیت کر نے میں کوئی حرج نہیں ہے 
تعزیت کے الفاظ یہ ہونے چاہییں
أَخْلَفَ اللَّهُ عَلَيْك خَيْرًا مِنْهُ، وَأَصْلَحَك
یعنی اللہ تمہیں اس سے بہترین نعم البدل عطا فرمائے، اور  اصلاح فرمائے۔
البتہ کسی غیر مسلم کے انتقال کے بعد اُس کے لیے مغفرت کی دعا کرنا جائز نہیں ہے۔
فتاوی شامی میں ہے
(قَوْلُهُ: وَجَازَ عِيَادَتُهُ) أَيْ عِيَادَةُ مُسْلِمٍ ذِمِّيًّا نَصْرَانِيًّا أَوْ يَهُودِيًّا؛ لِأَنَّهُ نَوْعُ بِرٍّ فِي حَقِّهِمْ وَمَا نُهِينَا عَنْ ذَلِكَ، وَصَحَّ أَنَّ النَّبِيَّ اللَّهُ «عَادَ يَهُودِيًّا مَرِضَ بِجِوَارِهِ»، هِدَايَةٌ. (قَوْلُهُ: وَفِي عِيَادَةِ الْمَجُوسِيِّ قَوْلَانِ) قَالَ فِي الْعِنَايَةِ: فِيهِ اخْتِلَافُ الْمَشَايِخِ فَمِنْهُمْ مَنْ قَالَ بِهِ، لِأَنَّهُمْ أَهْلُ الذِّمَّةِ وَهُوَ الْمَرْوِيُّ عَنْ مُحَمَّدٍ، وَمِنْهُمْ مَنْ قَالَ هُمْ أَبْعَدُ عَنْ الْإِسْلَامِ مِنْ الْيَهُودِ وَالنَّصَارَى، أَلَا تَرَى أَنَّهُ لَا تُبَاحُ ذَبِيحَةُ الْمَجُوسِ وَنِكَاحُهُمْ اهـ. قُلْت: وَظَاهِرُ الْمَتْنِ كَالْمُلْتَقَى وَغَيْرِهِ اخْتِيَارُ الْأَوَّلِ لِإِرْجَاعِهِ الضَّمِيرَ فِي عِيَادَتِهِ إلَى الذِّمِّيِّ وَلَمْ يَقُلْ عِيَادَةُ الْيَهُودِيِّ وَالنَّصْرَانِيِّ، كَمَا قَالَ الْقُدُورِيُّ، وَفِي النَّوَادِرِ: جَارٌ يَهُودِيٌّ أَوْ مَجُوسِيٌّ مَاتَ ابْنٌ لَهُ أَوْ قَرِيبٌ يَنْبَغِي أَنْ يُعَزِّيَهُ، وَيَقُولَ: أَخْلَفَ اللَّهُ عَلَيْك خَيْرًا مِنْهُ، وَأَصْلَحَك، وَكَانَ مَعْنَاهُ أَصْلَحَك اللَّهُ بِالْإِسْلَامِ يَعْنِي رَزَقَك الْإِسْلَامَ وَرَزَقَك وَلَدًا مُسْلِمًا، كِفَايَةٌ". (كِتَابُ الْحَظْرِ وَالْإِبَاحَةِ، فَصْلٌ فِي الْبَيْعِ، ٦ / ٣٨٨، ط: دار الفكر) 
فتاوی عالمگیری میں ہے
وإذا مات الكافر قال لوالده أو قريبه في تعزيته أخلف الله عليك خيرا منه وأصلحك أي أصلحك بالإسلام ورزقك ولدا مسلما لأن الخيرية به تظهر كذا في التبيين (5/ 348)
علامہ شامی علیہ الرحمہ تحریر فرمائےہیں کہ 
ویعزی المسلم بالکافر : اعظم اللہ اجرک وصبرک والکافر بالمسلم غفراللہ لمیتک واحسن عزاءک 
 یعنی مسلمان کافرکی تعزیت میں کہے اللہ تمہارا اجروصبر بڑا کرے اور کافر مسلمان کی تعزیت میں کہے اللہ آپ کے مرحوم کی مغفرت فرمائے اورآپ کی تعزیت کو بہتر بنائے (ردالمحتار ج٢ ص٢٤٢ دارالکتب العلمیۃ)
قد اخرج مسلم عن ام سلمة قالت سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یقول مامن عبد تصیبہ مصیبة فیقول انا للہ وانا الیہ راجعون اللھم آجرنی الخ الا آجرہ اللہ تعالی فی مصیبتہ واخلف لہ خیرا منھا قالت فلما توفی ابوسلمۃ قلت کما امرنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فاخلف اللہ تعالی لی خیرا منہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم۔
(روح المعانی ج١ ص٤٢١ دارالکتب العلمیة)
مذکورہ بالا حوالہ جات سے معلوم ہوا کہ مؤمن کی وفات پر انا لله و انا الیه رجعون‘ پڑھے اور موذی کافر کی موت پر الحمد لله پڑھئے۔۔
والله ورسوله اعلم بالصواب 
کتبہ :- حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لہان 18خادم دار الافتاء البرکاتی علماء فاونڈیشن ضلع سرہا نیپال
13/07/2023

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area