(سوال نمبر 5042)
گمراہی اور کفر میں کیا فرق ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ کے بارے میں گمراہی اور کفر میں کیا فرق ہے۔موجودہ دور کے گمراہ فرقہ اہلسنت والجماعت کو کافر و مشرک کہتے ہیں تو ہم بھی جواب میں اسکو کافر کہیں یا خاموش رہیں گے۔
سائل:- محمد ناصر حسین مقیم حال دوبئی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده و نصلي على رسوله الكريم
وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالى عزوجل
کفر اور گمراہی میں یہ فرق ہے کہ کفر سے انسان خارج از اسلام ہوتا ہے اور گمراہی سے خارج از اسلام نہیں ہوتا ۔۔
جو کافر ہے اسے کافر کہیں گے اور جو گمراہ ہے اسے گمراہ کہیں گے ۔
ضروریات دین کا منکر کافر ہے جیسے ارکان اسلام نماز روزہ حج زکات وغیرہ
اور ضروریات اہل سنت کا منکر گمراہ بد مذہب ہے
چیسے عذاب قبر ،اعمال کا وزن وغیرہا اور اس کا منکر بدمذہب گمراہ ہوتاہے۔
یعنی نماز ‘روزہ ‘حج ‘زکوۃ کی فرضیت‘ زنا، قتل، چوری اور شراب خوری کی ممانعت‘ رسول اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خاتم الانبیاء ہونے کا اقرار وغیرہ جیسے احکام قطعیہ کو ضروریات دین کے نام سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ ان میں سب سے اولین ضرورت یہ ہے کہ
تصديق ما جاءبه النبی صلیٰ الله عليه وآله وسلم
جو کچھ نبی علیہ السلام لائے ہیں اس کی دل سے تصدیق کرنا
ضروریات دین سے مراد اسلام کے وہ احکام ہیں جن کو ہرخاص وعام جانتے ہوں جیسے اللہ کی وحدانیت انبیاء کی نبوت ،جنت و نار ،حشر و نشر وغیرہا مثلاً یہ اعتقاد کہ نبی ﷺ خاتم النبین ہیں ،حضورﷺ کے بعد کوٸی نیا نبی نہیں ہوسکتا
(بہارشریعت ،ج١،ص١٧٢،مکتة المدینة،کراچی)
مجتہد فی المسائل اعلی حضرت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں
تمہید ایمان میں موافق سے تحریر فرماتے ہیں
اعلم ان المراد باھل القبلة الذین اتفقوا علی ماھو من ضروریات الدین کحدوث العالم وحشرالاجساد وعلم اللہ تعالی بالکلیات والجزٸیات۔
(تمہیدایمان مع حاشیہ ایمان کی پہچان ،ص١٠٢،المدینة العلمیة دعوت اسلامی)
مصنف بہار شریعت رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں
مسلمان کو مسلمان اور کافر کو کافر جاننا بھی ضروریات دین سے ہے (ج١،ص١٨٥)
ضروریات دین ان کا منکر بلکہ ان میں ادنی شک کرنے والا بالیقین کافر ہوتا ہے ایسا کہ جو اسکے کفر میں شک کرے وہ بھی کافر
(فتاویٰ رضویہ جدید،ج ٢٩،ص٤١٤،رضافاونڈییشن لاہور)
اور ضروریات اہلسنت کے تحت فقیہ اعظم ہند حضرت علامہ مفتی محمد شریف الحق امجدی رحمة اللہ علیہ رقم فرماتے ہیں کہ ضروریات اہلسنت کامطلب یہ ہوتا ہے کہ اس کا مذہب اہلسنت سے ہونا سب عوام وخواص اہلسنت کو معلوم ہو جیسے عذاب قبر ،اعمال کا وزن وغیرہا۔اور اس کا منکر بدمذہب گمراہ ہوتاہے۔
(نزھة القاری شرح بخاری،ج١،ص٢٩٤،فریدبک سٹال، لاہور)
ملک العلما، بہاری حضرت محمد ظفر الدین قادری برکاتی رضوی شاگرد و خلیفہ ،اعلی حضرت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں
محمد بن عبد الوھاب و اسماعیل دہلوی کے عقائد کفریہ نہ تھے اگرچہ بعض اقوال شان اسلام سے بہت گرے ہوئے ہیں مگر التزام کفر نہ ہونے کی وجہ سے محققین و محتاطین علمائے کرام نے ان دونوں اور ان کے ہم خیالوں کی تکفیر نہ کی ،
,صرف گمراہ اور بدمذہب کہا ,,,,کافر کا یہ مطلب ہے کہ ضروریات دین میں سے کسی بات کا منکر ہے اس شخص کو نئے سرے سے کلمہ پڑھ کر مسلمانوں میں شامل ہونا چاہئے اور اپنے عقائد و خیالات سے بری ہونا چاہئے ,اور بدمذہب کہنے کا مطلب یہ ہے کہ یہ شخص دائرہ اسلام میں ہے مگر اس کے خیالات مطابق عقیدہ اہلسنت نہیں ,اسے اپنے خیال سے توبہ کرنا چاہئے ,(فتاویٰ ملک العلما کتاب السیر ص ۲۲۹ )
اب کچھ تفصیل ملاحظہ کریں
اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا
ذٰلِکَ الْکِتٰـبُ لاَ رَيْبَ ج فِيْهِ ج هُدًی لِّلْمُتَّقِيْنَo الَّذِيْنَ يُؤْمِنُوْنَ بِالْغَيْبِ وَيُقِيْمُوْنَ الصَّلَاةَ وَمِمَّا رَزَقْنٰهُمْ يُنْفِقُوْنَo وَالَّذِيْنَ يُؤْمِنُوْنَ بِمَآ اُنْزِلَ اِلَيْکَ وَمَآ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِکَ ج وَبِالْاٰخِرَةِ هُمْ يُوْقِنُوْنَo اُولٰـئِکَ عَلٰی هُدًی مِّنْ رَّبِّهِمْ ق وَاُولٰـئِکَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَo
(یہ) وہ عظیم کتاب ہے جس میں کسی شک کی گنجائش نہیں، (یہ) پرہیزگاروں کے لیے ہدایت ہے۔ جو غیب پر ایمان لاتے اور نماز کو (تمام حقوق کے ساتھ) قائم کرتے ہیں او رجو کچھ ہم نے انہیں عطا کیا ہے اس میں سے (ہماری راہ) میں خرچ کرتے ہیں۔ اور وہ لوگ جو آپ کی طرف نازل کیا گیا اور جو آپ سے پہلے نازل کیا گیا (سب) پر ایمان لاتے ہیں، اور وہ آخرت پر بھی (کامل) یقین رکھتے ہیں۔ وہی اپنے رب کی طرف سے ہدایت پر ہیں اور وہی حقیقی کامیابی پانے والے ہیں (البقرة، 2: 2 تا 5)
لہٰذا رسولِ خدا صلیٰ اللہ علیہ وسلم اور آپ کی لائی ہوئی کتاب سمیت آپ کی عنائت کردہ تمام تعلیمات کو بلاشک و شبہ دل سے تصدیق کرنا اور یقین رکھنا ضروریاتِ دین میں سے ہے، اور یہی ضروریات اہلِ سنت ہیں۔ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لانے کی حقیقت یہ ہے جو قرآن مجید نے بالفاظ ذیل بتلائی ہے:
فلاوربک لايؤمنون حتی يحکموک فيما شجر بينهم ثم لايجدوا فی انفسهم حرجا ً مما قضيت ويسلموا تسليما
قسم ہے آپ کے رب کی یہ لوگ اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتے جب تک کہ وہ آپ کو اپنے تمام نزاعات و اختلافات میں حَکم نہ بنا دیں اور پھر جو فیصلہ آپ فرمادیں اس سے اپنے دلوں میں کوئی تنگی محسوس نہ کریں ا ور اس کو پوری طرح تسلیم نہ کر لیں۔(نساء: 65)
تفسیر روح المعانی میں اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے امام شہاب الدین محمود آلوسی فرماتے ہیں:
فقد روی عن الصادق انه قال لو ان قوما عبدوالله تعالیٰ واقامواالصلوٰة وآتوا الزکوة وصاموارمضان وحجواالبيت ثم قالوالشئی صنعه رسول اﷲ الاّصنع خلاف ماصنع او وجدوا فی انفسهم حرجاً لکانوا مشرکين
حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ اگر کوئی قوم اللہ تعالیٰ کی عبادت کرے، نماز کی پابندی کرے، زکوٰۃ ادا کرے، رمضان کے روزے رکھے اور بیت اللہ شریف کا حج کرے مگر پھر کسی ایسے فعل کو جس کا ذکر حضور صلیٰ اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہو یوں کہے کہ آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے ایسا کیوں کیا؟ اس کے خلاف کیوں نہ کیا؟ اور اس کے ماننے سے اپنے دل میں تنگی محسوس کرے تو یہ قوم مشرکین میں سے ہے۔(آلوسی، روح المعانی، 5: 65)
آیت مذکورہ اور اس کی تفسیر سے واضح ہوگیا کہ رسالت پر ایمان لانے کی حقیقت یہ ہے کہ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تمام احکام کو دل و جان سے تسلیم کیا جائے۔
ثبوت کے اعتبار سے احکام اسلامیہ کی مختلف قسمیں، اور تمام اقسام کا حکم بھی مختلف ہے۔ کفر کا حکم صرف ان احکام کے انکار سے عائد ہوتا ہے جو قطعی الثبوت بھی ہوں اورقطعی الدلالت بھی۔ اگر کوئی شخص قطعی الثبوت اور قطعی الدلالہ احکام کو تسلیم کرنے سے انکار اور گردن کشی کرے اور ان کے واجب التعمیل ہونے کا عقیدہ نہ رکھے تو وہ ضروریات دین کا منکر ہونے کی وجہ سے اہلِ قبلہ میں شامل نہیں رہتا۔ لیکن اگر کوئی شخص حکم کو توواجب التعمیل سمجھتا ہے مگر غفلت کی وجہ سے اس پر عمل نہیں کرتا تو فاسق اور گمراہ، مگر اہلِ اسلام میں شامل ہے۔
احکام کے قطعی الثبوت ہونے کا مطلب تو یہ ہے کہ ان کا ثبوت قرآن مجید یا احادیثِ متواترہ سے ہو، اور قطعی الدلالۃ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ جو عبارت قرآن مجید یا حدیث متواتر میں اس حکم کے متعلق وارد ہوئی ہے وہ اپنے مفہوم و مراد کو صاف صاف بیان کرتی ہو، اور اس میں کسی قسم کی تاویل کی گنجائش نہ ہو۔۔
والله ورسوله أعلم بالصواب
کتبہ:- حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال۔14/07/2023
گمراہی اور کفر میں کیا فرق ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ کے بارے میں گمراہی اور کفر میں کیا فرق ہے۔موجودہ دور کے گمراہ فرقہ اہلسنت والجماعت کو کافر و مشرک کہتے ہیں تو ہم بھی جواب میں اسکو کافر کہیں یا خاموش رہیں گے۔
سائل:- محمد ناصر حسین مقیم حال دوبئی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده و نصلي على رسوله الكريم
وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالى عزوجل
کفر اور گمراہی میں یہ فرق ہے کہ کفر سے انسان خارج از اسلام ہوتا ہے اور گمراہی سے خارج از اسلام نہیں ہوتا ۔۔
جو کافر ہے اسے کافر کہیں گے اور جو گمراہ ہے اسے گمراہ کہیں گے ۔
ضروریات دین کا منکر کافر ہے جیسے ارکان اسلام نماز روزہ حج زکات وغیرہ
اور ضروریات اہل سنت کا منکر گمراہ بد مذہب ہے
چیسے عذاب قبر ،اعمال کا وزن وغیرہا اور اس کا منکر بدمذہب گمراہ ہوتاہے۔
یعنی نماز ‘روزہ ‘حج ‘زکوۃ کی فرضیت‘ زنا، قتل، چوری اور شراب خوری کی ممانعت‘ رسول اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خاتم الانبیاء ہونے کا اقرار وغیرہ جیسے احکام قطعیہ کو ضروریات دین کے نام سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ ان میں سب سے اولین ضرورت یہ ہے کہ
تصديق ما جاءبه النبی صلیٰ الله عليه وآله وسلم
جو کچھ نبی علیہ السلام لائے ہیں اس کی دل سے تصدیق کرنا
ضروریات دین سے مراد اسلام کے وہ احکام ہیں جن کو ہرخاص وعام جانتے ہوں جیسے اللہ کی وحدانیت انبیاء کی نبوت ،جنت و نار ،حشر و نشر وغیرہا مثلاً یہ اعتقاد کہ نبی ﷺ خاتم النبین ہیں ،حضورﷺ کے بعد کوٸی نیا نبی نہیں ہوسکتا
(بہارشریعت ،ج١،ص١٧٢،مکتة المدینة،کراچی)
مجتہد فی المسائل اعلی حضرت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں
تمہید ایمان میں موافق سے تحریر فرماتے ہیں
اعلم ان المراد باھل القبلة الذین اتفقوا علی ماھو من ضروریات الدین کحدوث العالم وحشرالاجساد وعلم اللہ تعالی بالکلیات والجزٸیات۔
(تمہیدایمان مع حاشیہ ایمان کی پہچان ،ص١٠٢،المدینة العلمیة دعوت اسلامی)
مصنف بہار شریعت رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں
مسلمان کو مسلمان اور کافر کو کافر جاننا بھی ضروریات دین سے ہے (ج١،ص١٨٥)
ضروریات دین ان کا منکر بلکہ ان میں ادنی شک کرنے والا بالیقین کافر ہوتا ہے ایسا کہ جو اسکے کفر میں شک کرے وہ بھی کافر
(فتاویٰ رضویہ جدید،ج ٢٩،ص٤١٤،رضافاونڈییشن لاہور)
اور ضروریات اہلسنت کے تحت فقیہ اعظم ہند حضرت علامہ مفتی محمد شریف الحق امجدی رحمة اللہ علیہ رقم فرماتے ہیں کہ ضروریات اہلسنت کامطلب یہ ہوتا ہے کہ اس کا مذہب اہلسنت سے ہونا سب عوام وخواص اہلسنت کو معلوم ہو جیسے عذاب قبر ،اعمال کا وزن وغیرہا۔اور اس کا منکر بدمذہب گمراہ ہوتاہے۔
(نزھة القاری شرح بخاری،ج١،ص٢٩٤،فریدبک سٹال، لاہور)
ملک العلما، بہاری حضرت محمد ظفر الدین قادری برکاتی رضوی شاگرد و خلیفہ ،اعلی حضرت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں
محمد بن عبد الوھاب و اسماعیل دہلوی کے عقائد کفریہ نہ تھے اگرچہ بعض اقوال شان اسلام سے بہت گرے ہوئے ہیں مگر التزام کفر نہ ہونے کی وجہ سے محققین و محتاطین علمائے کرام نے ان دونوں اور ان کے ہم خیالوں کی تکفیر نہ کی ،
,صرف گمراہ اور بدمذہب کہا ,,,,کافر کا یہ مطلب ہے کہ ضروریات دین میں سے کسی بات کا منکر ہے اس شخص کو نئے سرے سے کلمہ پڑھ کر مسلمانوں میں شامل ہونا چاہئے اور اپنے عقائد و خیالات سے بری ہونا چاہئے ,اور بدمذہب کہنے کا مطلب یہ ہے کہ یہ شخص دائرہ اسلام میں ہے مگر اس کے خیالات مطابق عقیدہ اہلسنت نہیں ,اسے اپنے خیال سے توبہ کرنا چاہئے ,(فتاویٰ ملک العلما کتاب السیر ص ۲۲۹ )
اب کچھ تفصیل ملاحظہ کریں
اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا
ذٰلِکَ الْکِتٰـبُ لاَ رَيْبَ ج فِيْهِ ج هُدًی لِّلْمُتَّقِيْنَo الَّذِيْنَ يُؤْمِنُوْنَ بِالْغَيْبِ وَيُقِيْمُوْنَ الصَّلَاةَ وَمِمَّا رَزَقْنٰهُمْ يُنْفِقُوْنَo وَالَّذِيْنَ يُؤْمِنُوْنَ بِمَآ اُنْزِلَ اِلَيْکَ وَمَآ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِکَ ج وَبِالْاٰخِرَةِ هُمْ يُوْقِنُوْنَo اُولٰـئِکَ عَلٰی هُدًی مِّنْ رَّبِّهِمْ ق وَاُولٰـئِکَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَo
(یہ) وہ عظیم کتاب ہے جس میں کسی شک کی گنجائش نہیں، (یہ) پرہیزگاروں کے لیے ہدایت ہے۔ جو غیب پر ایمان لاتے اور نماز کو (تمام حقوق کے ساتھ) قائم کرتے ہیں او رجو کچھ ہم نے انہیں عطا کیا ہے اس میں سے (ہماری راہ) میں خرچ کرتے ہیں۔ اور وہ لوگ جو آپ کی طرف نازل کیا گیا اور جو آپ سے پہلے نازل کیا گیا (سب) پر ایمان لاتے ہیں، اور وہ آخرت پر بھی (کامل) یقین رکھتے ہیں۔ وہی اپنے رب کی طرف سے ہدایت پر ہیں اور وہی حقیقی کامیابی پانے والے ہیں (البقرة، 2: 2 تا 5)
لہٰذا رسولِ خدا صلیٰ اللہ علیہ وسلم اور آپ کی لائی ہوئی کتاب سمیت آپ کی عنائت کردہ تمام تعلیمات کو بلاشک و شبہ دل سے تصدیق کرنا اور یقین رکھنا ضروریاتِ دین میں سے ہے، اور یہی ضروریات اہلِ سنت ہیں۔ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لانے کی حقیقت یہ ہے جو قرآن مجید نے بالفاظ ذیل بتلائی ہے:
فلاوربک لايؤمنون حتی يحکموک فيما شجر بينهم ثم لايجدوا فی انفسهم حرجا ً مما قضيت ويسلموا تسليما
قسم ہے آپ کے رب کی یہ لوگ اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتے جب تک کہ وہ آپ کو اپنے تمام نزاعات و اختلافات میں حَکم نہ بنا دیں اور پھر جو فیصلہ آپ فرمادیں اس سے اپنے دلوں میں کوئی تنگی محسوس نہ کریں ا ور اس کو پوری طرح تسلیم نہ کر لیں۔(نساء: 65)
تفسیر روح المعانی میں اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے امام شہاب الدین محمود آلوسی فرماتے ہیں:
فقد روی عن الصادق انه قال لو ان قوما عبدوالله تعالیٰ واقامواالصلوٰة وآتوا الزکوة وصاموارمضان وحجواالبيت ثم قالوالشئی صنعه رسول اﷲ الاّصنع خلاف ماصنع او وجدوا فی انفسهم حرجاً لکانوا مشرکين
حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ اگر کوئی قوم اللہ تعالیٰ کی عبادت کرے، نماز کی پابندی کرے، زکوٰۃ ادا کرے، رمضان کے روزے رکھے اور بیت اللہ شریف کا حج کرے مگر پھر کسی ایسے فعل کو جس کا ذکر حضور صلیٰ اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہو یوں کہے کہ آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے ایسا کیوں کیا؟ اس کے خلاف کیوں نہ کیا؟ اور اس کے ماننے سے اپنے دل میں تنگی محسوس کرے تو یہ قوم مشرکین میں سے ہے۔(آلوسی، روح المعانی، 5: 65)
آیت مذکورہ اور اس کی تفسیر سے واضح ہوگیا کہ رسالت پر ایمان لانے کی حقیقت یہ ہے کہ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تمام احکام کو دل و جان سے تسلیم کیا جائے۔
ثبوت کے اعتبار سے احکام اسلامیہ کی مختلف قسمیں، اور تمام اقسام کا حکم بھی مختلف ہے۔ کفر کا حکم صرف ان احکام کے انکار سے عائد ہوتا ہے جو قطعی الثبوت بھی ہوں اورقطعی الدلالت بھی۔ اگر کوئی شخص قطعی الثبوت اور قطعی الدلالہ احکام کو تسلیم کرنے سے انکار اور گردن کشی کرے اور ان کے واجب التعمیل ہونے کا عقیدہ نہ رکھے تو وہ ضروریات دین کا منکر ہونے کی وجہ سے اہلِ قبلہ میں شامل نہیں رہتا۔ لیکن اگر کوئی شخص حکم کو توواجب التعمیل سمجھتا ہے مگر غفلت کی وجہ سے اس پر عمل نہیں کرتا تو فاسق اور گمراہ، مگر اہلِ اسلام میں شامل ہے۔
احکام کے قطعی الثبوت ہونے کا مطلب تو یہ ہے کہ ان کا ثبوت قرآن مجید یا احادیثِ متواترہ سے ہو، اور قطعی الدلالۃ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ جو عبارت قرآن مجید یا حدیث متواتر میں اس حکم کے متعلق وارد ہوئی ہے وہ اپنے مفہوم و مراد کو صاف صاف بیان کرتی ہو، اور اس میں کسی قسم کی تاویل کی گنجائش نہ ہو۔۔
والله ورسوله أعلم بالصواب
کتبہ:- حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال۔14/07/2023