Type Here to Get Search Results !

ایک بہترین حافظ قرآن ہے لیکن فاسق معلن ہے اور دوسرا مقتدی ایسا جس کے بارے میں یہ یقین ہے کہ اگر یہ نماز پڑھاےگا تو غلطی کر ہی دے گا، تو اب دونوں میں سے کس کی امامت درست ہوگی

 

السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ

کیا فرماتے ہیں علماے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل میں کہ :ایک بہترین حافظ قرآن ہے لیکن فاسق معلن ہے اور دوسرا مقتدی ایسا جس کے بارے میں یہ یقین ہے کہ اگر یہ نماز پڑھاےگا تو غلطی کر ہی دے گا، تو اب دونوں میں سے کس کی امامت درست ہوگی -مدلل و مفصل جواب عنایت فرمائیں۔

سائل :محمد نعیم الدین(سرہا نیپال)۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


نحمدہ و نصلی علی رسولہ الامین ۔۔۔

وعلیکم السلام و رحمتہ اللہ و برکاتہ ۔

مذکورہ بالا سائل کے جواب ذیل میں مکتوب ہے ۔

 اول ہم شرعا فاسق کی تعریف کی طرف چلتے ہیں ۔

فاسق و فاجر تقریباً ہم معنیٰ الفاظ ہیں، جوکہ عربی زبان سے اردو میں آئے ہیں اور بطور صفت استعمال ہوتے ہیں۔

لغت میں فاسق، نافرمان اور  حسن و فلاح کے راستے سے منحرف ہونے والے شخص کو کہتے ہیں۔ عربی زبان میں کہا جاتا ہے:

فسق فلان عن الجماعة إذ خرج عنها

فلاں شخص جماعت کا نافرمان ہو گیا، جب وہ جماعت سے نکل گیا۔

اصطلاح میں فاسق اس شخص کو کہتے ہیں جو حرام کا مرتکب ہو یا واجب کو ترک کرے یا اطاعتِ الٰہی سے نکل جائے۔ غیر عادل شخص کو بھی فاسق کہا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرنے اور حدودِ شرعی کو توڑنے والا بھی فاسق کہلاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی دو طرح کی ہے: ایک کلی اور دوسری جزوی۔ کلی اور واضح نافرمانی کفر ہے جس میں کوئی شخص اللہ کی نافرمانی کو درست جانتا ہے، جبکہ جزوی نافرمانی فسق ہے جس میں ایک شخص دین الٰہی اور شریعتِ محمدی کی تصدیق بھی کرتا ہے مگر خواہشات نفس میں پڑ کر شریعت کے کسی حکم کی خلاف ورزی  بھی کر دیتا ہے، مگر اس کے دل میں یہ یقین ہوتا ہے کہ یہ حکم عدولی غلط اور ناجائز ہے۔ ایسا کرنے والے کو فاسق کہتے ہیں۔

الفسق: في اللغة عدم إطاعة أمر الله وفي الشرع ارتكاب المسلم كبيرة قصدا أو صغيرة مع الإصرار عليها بلا تأويل

فسق، لغت میں اللہ کے حکم کی عدم تعمیل کو کہتے ہیں اور شرع میں اس سے مراد کسی مسلم کا بغیر تاویل کے قصداً گناہِ کبیرہ کا ارتکاب یا گناہِ صغیرہ پر اصرار ہے۔

قواعد الفقه: 1: 412

قرآنِ مجید نے بسا اوقات کفر کو بھی فسق کہا اور کئی مقامات پر کفر کو فسق سے الگ نافرمانی کے معنیٰ میں بھی بیان فرمایا۔ جیسے سورہ حجرات میں ارشاد فرمایا:

وَلَكِنَّ اللَّهَ حَبَّبَ إِلَيْكُمُ الْإِيْمَانَ وَزَيَّنَهُ فِي قُلُوبِكُمْ وَكَرَّهَ إِلَيْكُمُ الْكُفْرَ وَالْفُسُوقَ وَالْعِصْيَانَ

لیکن اللہ نے تمہیں ایمان کی محبت عطا فرمائی اور اسے تمہارے دلوں میں آراستہ فرما دیا اور کفر اور نافرمانی اور گناہ سے تمہیں متنفر کر دیا۔

الحجرات، 49: 8

کفر پر فسق کا اطلاق کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:

وَأَمَّا الَّذِينَ فَسَقُوا فَمَأْوَاهُمُ النَّارُ كُلَّمَا أَرَادُوا أَن يَخْرُجُوا مِنْهَا أُعِيدُوا فِيهَا وَقِيلَ لَهُمْ ذُوقُوا عَذَابَ النَّارِ الَّذِي كُنتُم بِهِ تُكَذِّبُونَ

اور جو لوگ نافرمان ہوئے سو ان کا ٹھکانا دوزخ ہے۔ وہ جب بھی اس سے نکل بھاگنے کا ارادہ کریں گے تو اسی میں لوٹا دیئے جائیں گے اور ان سے کہا جائے گا کہ اِس آتشِ دوزخ کا عذاب چکھتے رہو جِسے تم جھٹلایا کرتے تھے

السجدة، 32 : 20

عربی زبان میں اس کی جمع فُسَّاقٌ اور فَوَاسِقُ، جبکہ مونث کے لیے فاسقہ کا لفظ استعمال ہوتا ہے، اور اردو زبان میں اس کی جمع فاسِقِین اور جمع غیرندائی فاسِقوں مستعمل ہے۔

فاجر کے لغوی معنیٰ گنہگار اور حق سے منہ موڑنے والے کے ہیں۔ گناہوں میں لت پت شخص کو بھی فاجر کہتے ہیں۔ اس کی جمع فاجرون، فُجَّار اور مؤنث فاجرۃ ہے۔

ایسے شخص کی امامت  مکروہِ تحریمی ہے ۔ نماز اس کے پیچھے ہوجاتی ہے، مگر مکروہ ہوتی ہے۔عمومی حالات میں  کوشش کرکے صالح متقی شخص کے پیچھے نماز پڑھے۔

طحطاوی علی مراقی الفلاح میں ہے:

"کره إمامة الفاسق، والفسق لغةً: خروج عن الاستقامة، وهو معنی قولهم: خروج الشيء عن الشيء علی وجه الفساد. وشرعاً: خروج عن طاعة اﷲ تعالی بارتکاب کبیرة. قال القهستاني: أي أو إصرار علی صغیرة. (فتجب إهانته شرعاً فلایعظم بتقدیم الإمامة) تبع فیه الزیلعي ومفاده کون الکراهة في الفاسق تحریمیة".( الطحطاوي علی مراقي الفلاح)

قال في الدر المختار:

"و الأحق بالإمامة تقدیماً بل نصباً الأعلم بأحکام الصلاة فقط صحة ًوفساداً بشرط اجتنابه للفواحش ۔


مگر مذکورہ سوال میں ظاہر ہے ایسا اتفاقیہ کبھی کبھار ہو جاتا ہے یا ضرورت پڑتی ہے پس عالم الصلوۃ کے پیچھے نماز پڑھنا جائز ہے جیسا کہ سائل کے قول سے واضح ہے کہ دوسرا بالیقین نماز میں خطا کریگا(مطلب نرا جاہل ہے )

اسی لئے بوجہ مجبوری فاسق کے پیچھے نماز پڑھنے میں کوئی ممانعت نہیں ہے جیسا کہ ذیل کے احادیث سے ثابت ہے ۔۔

گناہگار کی اقتداء میں نماز پڑھنے کی ممانعت نہیں ہے، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمايا:

الصَّلاَةُ الْمَكْتُوبَةُ وَاجِبَةٌ خَلْفَ كُلِّ مُسْلِمٍ بَرًّا كَانَ أَوْفَاجِرًا وَإِنْ عَمِلَ الْكَبَائِرَ.

فرض نماز کی ادائیگی لازم ہے ہر مسلمان کے پیچھے خواہ وہ نیک ہو یا بد‘ اگرچہ کبیرہ گناہوں کا مرتکب ہی کیوں نہ ہو

أبوداود، السنن، كتاب الصلاة، باب إمامة البر والفاجر، 1: 162، رقم: 594، بيروت: دار الفك

ایک اور روایت میں ہے کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمايا

الْجِهَادُ وَاجِبٌ عَلَيْكُمْ مَعَ كُلِّ أَمِيرٍ بَرًّا كَانَ أَوْ فَاجِرًا وَالصَّلاَةُ وَاجِبَةٌ عَلَيْكُمْ خَلْفَ كُلِّ مُسْلِمٍ بَرًّا كَانَ أَوْ فَاجِرًا وَإِنْ عَمِلَ الْكَبَائِرَ وَالصَّلاَةُ وَاجِبَةٌ عَلَى كُلِّ مُسْلِمٍ بَرًّا كَانَ أَوْ فَاجِرًا وَإِنْ عَمِلَ الْكَبَائِرَ

تم پر جہاد فرض ہے ہر امیر کے ساتھ، نیک ہو یا بد گو کبیرہ گناہ کرے۔ تم پر نماز پڑھنا واجب ہے ہر مسلمان کے پیچھے، نیک ہو یا بد گو کبیرہ گناہ کرے۔ اور نماز جنازہ ہر مسلمان پر واجب ہے نیک ہو خواہ برا گو گناہ کبیرہ کرے

أبوداود، السنن، كتاب الجهاد، باب في الغزو مع أئمة الجور، 3: 18، رقم: 253

بيهقي، السنن الکبری، 3: 121، رقم: 5083، مکة المکرمة: مکتبة دار البا

مذکورہ روایات سے واضح ہوتا ہے کہ ہر مسلمان کی اقتداء میں نماز کی ادائیگی جائز ہے اگر مقتدی اس کی امامت پر راضی ہوں، اگر مقتدی اس کی امامت پر راضی نہیں ہیں تو اس کی نماز نہ ہو گی۔ جیسا کہ حضرت عبد اﷲ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرمایا کرتے تھے

ثَلَاثَةٌ لَا يَقْبَلُ اللَّهُ مِنْهُمْ صَلَاةً، مَنْ تَقَدَّمَ قَوْمًا وَهُمْ لَهُ كَارِهُونَ، وَرَجُلٌ أَتَى الصَّلَاةَ دِبَارًا وَالدِّبَارُ: أَنْ يَأْتِيَهَا بَعْدَ أَنْ تَفُوتَهُ، وَرَجُلٌ اعْتَبَدَ مُحَرَّرَهُ

تین آدمیوں کی نماز اﷲ تعالیٰ قبول نہیں فرماتا: ایک وہ جو ایسے لوگوں کا امام بن بیٹھے جبکہ وہ اسے ناپسند کرتے ہوں، دوسرا وہ شخص جو نماز کا وقت گزرنے کے بعد نماز پڑھنے آئے، تیسرا وہ جو کسی آزاد مرد یا عورت کو غلام بنالے

أبي داود، السنن، 1: 122، رقم: 59

حضرت غالب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابوا مامہ رضی اللہ عنہ کو فرماتے ہوئے سنا کہ رسول اﷲ نے فرمایا

ثَلاَثَةٌ لاَ تُجَاوِزُ صَلاَتُهُمْ آذَانَهُمْ: العَبْدُ الآبِقُ حَتَّى يَرْجِعَ، وَامْرَأَةٌ بَاتَتْ وَزَوْجُهَا عَلَيْهَا سَاخِطٌ، وَإِمَامُ قَوْمٍ وَهُمْ لَهُ كَارِهُونَ

تین آدمیوں کی نماز ان کے کانوں سے آگے نہیں بڑھتی: ایک بھاگا ہوا غلام جب تک واپس نہ آ جائے، دوسری وہ عورت جو اس حالت میں رات گزارے کہ اس کا خاوند اس پر ناراض ہو اور تیسرا کسی قوم کا امام جسے لوگ ناپسند کرتے ہوں

(ترمذي، السنن، كتاب أبواب الصلاة ، باب ما جاء فيمن أم قوما وهم له كارهون ، 2: 193، رقم: 360، بيروت، لبنان: دار إحياء الترث العرب

ابن أبي شیبة، المصنف، 1: 358، رقم: ٤113، الریاض: مکتبة الرشد


واللہ ورسولہ اعلم بالصواب


کتبہ عبدہ المذہب محمد مجیب قادری لہان ١٨ خادم البرقي دار الإفتاء أشرف العلماء فاونديشن نيبال.







Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area